ابومنصور جمالالدین حسن بن یوسف بن مطہّر حلی المعروف بہ علامہ حلی، ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں سرزمین عراق کے معروف ترین شیعہ علماء میں سے تھے، آپ مجتہد، فقیہ، اصولی (اصول فقہ میں صاحب نظر شیعہ علماء) تھے۔ آپ کے والد محترم فخرالمحققین حلّی تھے۔
حضرت امام علی علیہ السلام کی "شہر حلہ” کے بارے میں دلچسپ پیشینگوئی
کہتے ہیں امام المتقین، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کوفہ سے صفین کے راستے میں بابل کی پہاڑیوں سے گزرتے وقت ایک ٹیلے پر ٹھہرے اور جنگل اور جھاڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
یہاں ایک شہر ہوگا، اور وہ بھی کیسا شہر!
آپ علیہ السلام کے قریبی صحابی اصبغ بن نباتہ نے عرض کیا:
یا امیرالمؤمنین! میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ یہاں پر کسی شہر کا ذکر فرما رہے ہیں، کیا یہاں کبھی کوئی شہر تھا اور اب اس کے آثار مٹ گئے ہیں؟
فرمایا: نہیں!
لیکن یہاں ایک ایسا شہر آباد ہوگا جو (حلہ سیفیّہ) کے نام سے مشہور ہوگا، اور اس شہر کی تعمیر قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص کرے گا۔ یہاں پر ایسے پاک طینت اور مطہر لوگ پیدا ہوں گے جو خدا کے مقرّب بندے، اور مستجاب الدعاۃ ہوں گے۔
جائے ولادت اور ولادت
ماہ رمضان کی ۲۹ تاریخ، سنہ ۶۴۸ ہجری میں، اس شہر (حلہ) کے ایک پاک طینت گھرانے ٘میں ایک بچہ کی ولادت ہوئی، جو خدا کی بارگاہ کے مقربین میں سے قرار پایا۔
جس کا نام حسن ہے اور (علامہ حلّی) کے نام سے معروف ہے۔
والد کے طرف سے، آپ کے آباء و اجداد، کا سلسلہ مطہر والوں سے ملتا ہے اور ماں کی طرف سے آپ کا تعلق محقق حلّی سے ہے جو آپ کے ماموں لگتے ہیں۔
علامہ حلّی کا خاندان اور نسب
علامہ حلّی کی والدہ ایک نیک صفت اور پاک دامن خاتون تھیں، جو حسن بن یحییٰ بن حسن حلّی کی بیٹی اور محقق حلّی کی بہن تھیں۔ اور آپ کے والد علم و فقہ کے شہر، حلّہ کے نامور فقیہ اور عالم دین جناب شیخ یوسف سدیدالدین تھے۔
علامہ حلّی والد کی جانب سے "آل مطہر” سے تعلق رکھتے ہیں، جو بہت ہی محترم، اور باعظمت خاندان تھا اور اس کے سبھی افراد صاحب علم و فضل اور اہل تقوی ہوا کرتے تھے۔
انھوں نے بہت ہی قیمتی کتابوں اور تحریروں کا علمی ورثہ یادگار کے طور پر چھوڑا، جو اس زمانے سے لے کر آج تک علماء اور محققین کے لیے استفادہ کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
آل مطہر کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے ہے، جو حلّہ شہر میں عرب کا سب سے بڑا قبیلہ تھا، اور کئی دہائیوں تک حکومت اور سرداری جس کے پاس رہی۔
علامہ حلّی کی علمی شہرت، جوانی کے ایام میں
جمال الدین حسن، "آل مطہر” اور شہر علم و فقہ "حلّہ” کا آفتاب عالمتاب، جن کی تعلیمی زندگی کا ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، لیکن انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت اور بے پناہ ذوق و شوق سے فقه، حدیث، کلام، فلسفہ، اصول فقه، منطق، ریاضیات اور ہیئت جیسے علوم میں مہارت حاصل کر لی، اور علمی تجربے کی منزلوں کو طے کرلیا۔
بہت جلد ہی ان کے علم و فضل کی شہرت حلّہ اور دیگر شہروں میں پھیل گئی، علمی حلقوں اور دینی درسگاہوں میں ان کا نام بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا تھا، اور انہیں "علامہ” کہہ کر خطاب کیا جاتا تھا۔
علامہ حلّی سورج کی طرح افق علم پر چمکے اور لوگوں کو اپنے وجود سے فائدہ پہونچایا۔ آپ نے "حلّہ” میں مدرسہ قائم کیا، جہاں معارف اہل بیت علیہم السلام کے پیاسے دور دزار علاقوں سے کھنچتے چلے آئے اور اس دریائے بے کراں سے سیراب ہونے لگے۔
علماء میں کسی نے فرمایا ہے: "علامہ حلّی کی کوئی مثال نہیں، نہ ان کے زمانے سے پہلے اور نہ ہی بعد میں، ایسی شخصیت جن کے مدرسہ میں پانچ سو مجتہدین نے تربیت پائی ہے۔
تعلیم کا آغاز
آپ بچپنے میں اپنے والد کی رہنمائی میں قرآن کی تعلیم کے لئے مکتب تشریف لے گئے اور لکھنا اور پڑھنا سیکھا۔ اس کے بعد آپ نے ابتدائی تعلیم، نیز عربی ادب، علم فقه، اصول فقه، حدیث، اور کلام جیسے علوم کو اپنے والد شیخ یوسف سدیدالدین اور اپنے ماموں محقق حلّی سے حاصل فرمایا۔ اور منطق، فلسفہ اور ہیئت کی تعلیم اپنے دیگر اساتذہ خاص طور پر خواجہ نصیرالدین طوسی سے حاصل کی۔
مغلوں کا ایران پر حملہ اور عباسی خلافت کا زوال
جمال الدین حسن کی عمر مبارک کے ابھی دس برس نہیں گزرے تھے کہ مغلوں کے بے رحمانہ حملے کی بنا پر اسلامی ممالک میں خوف و ہراس ماحول چھا گیا۔ ایران مغول کے حملے کی آگ میں جل رہا تھا اور اس کی لپٹیں دیگر علاقوں کو بھی متاثّر کر رہی تھیں۔ اس وقت عراق کے لوگ بھی بہت بے چین تھے، کہ کہیں مغول کی فوجیں ایران سے عراق کی طرف نہ بڑھنے لگیں اور وہاں کے شہروں پر بھی یکے بعد دیگرے قبضہ کرلیں۔
عباسیوں کی سلطنت کا دار الحکومت "بغداد” عباسی حکومت کے زوال کے آخری دنوں کو دیکھ رہا تھا، اور لوگ مغول کے حملوں کے خوف سے شہر کو چھوڑ کر بیابانوں کی طرف چلے گئے تھے۔
کربلا، نجف، اور کاظمین جیسے عراق کے مقدس شہروں کے باشندوں اور شیعوں نے ائمہ معصومین علیہم السلام کی بارگاہ کا رخ کیا اور ان کی پناہ میں پہونچ کر، اپنے دلوں کو سکون بخشا۔
حلّہ کے لوگ بھی بیابانوں کی طرف نکل پڑے، اور کچھ لوگ کربلا اور نجف میں پناہ گزیں ہوگئے۔ لیکن لوگوں کی ایک تعداد اسی شہر میں ٹھہری رہی، جن میں تین بزرگ علماء، شیخ یوسف سدیدالدین، سید مجدالدین بن طاؤوس اور فقیہ ابن العز بھی شامل تھے۔
یہ علمائے کرام ایک مقام پر جمع ہوئے اور کربلا، نجف، کوفہ اور حلّہ جیسے مقدس شہروں کی نجات کے سلسلہ میں تبادلۂ خیال کیا اور کافی گفتگو اور آپسی مشورہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مغول کے سربراہ ہلاکو خاں کو ایک خط لکھا جائے، اور اس سے عراق کے مقدس شہروں کی امن و اماں کے سلسلہ میں درخواست کی جائے۔
بغداد پر مغول کا قبضہ اور عباسی خلافت کا خاتمہ
آخرکار سنہ ۶۵۷ ہجری میں ہلاکو خاں نے بغداد کو فتح کرلیا اور عباسی خاندان کے آخری خلیفہ "معتصم” کا خاتمہ ہوگیا۔ بغداد میں اسلامی ثقافت کا مرکز اور شیعہ مذہب جس کو کبھی بہت زیادہ رونق حاصل تھی، تباہ و برباد ہوگیا، اور خوف کے سیاہ بادل عراق کے شہروں پر چھا گئے۔
علماء اور دانشوروں کو پناہ
اگرچہ ابھی تہذیب سے ناآشنا مغول کے ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری تھا، لیکن حلّہ کے شیعہ علماء نے دانشمندی سے کام لیا، خاص طور پر جمال الدین حسن کے والد شیخ یوسف سدیدالدین نے بڑی کوشش کی، اور خدا کے لطف و کرم سے حلّہ اور عراق کے مقدس شہروں میں امن بحال ہوگیا اور حلّہ کی سرزمیں فقہاء اور علماء کے واسطے پناہ گاہ بن گئی۔
اس کے بعد سے حلّہ آٹھویں صدی کے آخر تک ایک بڑے شیعہ تعلیمی مرکز کی حیثیت سے پہچانا جاتا رہا، جہاں دور دراز علاقوں سے طلباء اور دانشور تعلیم کے لئے تشریف لائے۔ اس طرح جمال الدین حسن کا وطن علماء اور محققین کے لئے امن و سکون کا گہوارہ بن گیا، اور جنگ و جدال سے دور رہتے ہوئے سے علمائے دین سے علم حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوگیا۔
علامہ حلّی کا دور
علامہ حلّی کے دور کو شیعہ فقہ کی وسعت، مذہب اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی حقانیت، اور عالم اسلام کے گوشہ و کنار میں اسلامی علوم اور تہذیب کی ترقی کے دور کے طور یاد کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ علامہ حلّی نے اہل بیت علیہم السلام کے مذہب کے مطابق اسلامی علوم اور فقہ کی ترویج میں انتھک محنت اور بے پناہ کوشش کی، اور علم فقہ کے نئے اسلوب اور جدید طرز اجتہاد کو متعارف کرایا۔
آپ وہ پہلے فقیہ تھے، جنہوں نے ریاضیات کو فقہ میں ایک مستقل علم کے طور پر شامل کیا اور استدلالی فقہ کو کمال تک پہونچایا۔
علامہ کے جن فقہی، کلامی نظریات اور علمی آراء نے اپنے نقوش چھوڑے تھے، وہ شیعہ فقہاء و علماء کے فقہی نظریات کے مطابق علماء کی بحث اور استناد کا محور قرار پائے۔
اس زمانے میں بغداد اور عراق میں جوینی خاندان کی حکومت قائم تھی، اگرچہ ان کو مغول نے بغداد اور اس علاقے کا حکمراں مقرر کیا تھا۔ اور وہ تیس سال سے زیادہ عرصہ تک مکمل اقتدار میں رہے، لیکن انہوں نے اسلام کی ترویج، علماء کے اکرام، علم و کمالات کی نشر و اشاعت اور مغول کی خرابکاریوں کی اصلاح میں جو کچھ بھی ممکن ہوسکا اس میں کمی نہیں چھوڑی۔ درحقیقت، اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو اسلامی تہذیب و تمدن کا نام و نشان بھی نہ رہ جاتا۔
ایرانی حکیم جس نے مغول پر لگام لگائی!
ایران میں اگرچہ مغول کے حکام برسر اقتدار تھے، اور وہاں پر کئی برسوں تک خوف و ہراس، قتل و غارتگری اور خونریزی کا ماحول گرم رہا، لیکن آہستہ آہستہ مغول کی بدتہذیبی اور ظلم و تشدد کی خصلت میں کمی آتی گئی اور یہ سب ایران کی عوام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے زیر اثر، نیز خواجہ نصیر الدین طوسی جیسے با صلاحیت اور لائق و فائق وزیروں کی حکمت عملی اور ہوشیاری کی بدولت امکان پذیر ہوا، جو عقل اور وحی کے حامی اور علامہ حلّی کے استاد تھے۔
مغول حکومت میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے مخلص اور دیندار دانشوروں کی موجودگی نے، علمی ترقی اور درندہ صفت مغول کی جانب سے کتب خانوں اور ثقافتی مراکز کو نظر آتش کردیئے جانے سے روکنے میں اپنا اہم کردار پیش کیا۔ ایسے علماء جنھوں نے اس مہم کو انجام دینے میں اپنی عزت و شہرت داؤں پر لگادی اور شمع کے مانند جل کر روشنی پھیلائی۔
طلاق کا ماجرا، جس کی وجہ سے علامہ حلی کا ایران میں ورود ہوا
علامہ محمد تقی مجلسی اپنی کتاب "من لایحضره الفقیہ” کی شرح میں اپنے کچھ ساتھیوں سے نقل فرماتے ہیں کہ:
ایک دن سلطان خدابندہ نے اپنی بیوی پر غصّہ کرتے ہوئے ایک ہی نشست میں اس سے کہہ دیا: "اَنْتِ طالِقٌ ثَلاثا” میں نے تجھے تین طلاقیں دے دی۔ (توجہ رہے کہ جب کوئی اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے دے تو پھر اس سے دوبارہ شادی نہیں کرسکتا، جب تک وہ خاتون کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے اور وہ مرد ہمبستری کے بعد اپنے اختیار سے اسے طلاق دے دے، اس کے بعد وہ طلاق کی عدّت پوری کرنے کے بعد، اپنے سابقہ شوہر سے شادی کرسکتی ہے)
سلطان خدابندہ اپنے عمل پر بے حد پیشیمان ہوا اور اس نے اہل سنت کے چاروں مسالک کے علماء کو طلب کیا اور انہیں ماجرا سے آگاہ کرتے ہوئے اس کا حل پیش کرنے کا حکم دیا۔
تمام اہل سنت علماء نے کہا: "اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ سوائے یہ کہ آپ کی طلاق یافتہ بیوی کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور وہ شخص اس سے ہمبستری کے بعد، اسے طلاق دے دے۔
سلطان خدا بندہ نے کہا: ” ہر مسئلہ اور بحث میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس مسئلہ میں تمہارے درمیان کوئی اختلاف نہیں؟”
اہل سنت کے علماء نے متفقہ طور پر کہا: نہیں۔
تبھی سلطان کے ایک وزیر نے کہا: میں ایک عالم دین سے واقف ہوں جو "حلّہ” میں رہتا ہے، اور اس کے فتوے کے مطابق ایسا طلاق باطل ہے۔ (اس کے کہنے کا مطلب علامہ حلّی تھے)
سلطان خدابندہ نے علامہ حلّی کو خط لکھا اور انہیں دربار میں طلب کیا۔
اہل سنت علماء نے کہا: ” علامہ حلّی کا مذہب باطل ہے، رافضیوں کے پاس عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے!! اور شاہ کے لئے مناسب نہیں کہ ایسے لوگوں کو دعوت دیں” لیکن شاہ نے کہا: انہیں ضرور آنا ہوگا اور اس مسئلہ پر غور و خوض کیا جائے گا۔
جس وقت سلطان خدابندہ کا خط علامہ حلّی کو ملا، انہوں نے اپنی ذمہ داری کا إحساس کرتے ہوئے سفر کا ارادہ کرلیا اور طولانی راستے کی زحمتوں کو برداشت کرتے ہوئے، خود کو حلّہ سے سلطانیہ (زنجان سے پانچ فرسخ کی دوری پر) پہونچایا۔
علامہ حلّی اور اہل سنت علماء کے درمیان مناظرہ، مغول بادشاہ کے دربار میں
سلطان خدابندہ کے حکم سے ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا گیا، جس میں اہل سنت کے چاروں مسالک کے برجستہ علماء حاضر ہوئے۔ پھر علامہ حلّی اس جلسے میں داخل ہوئے، لیکن داخل ہوتے وقت انہوں نے اپنی نعلین اپنے ہاتھ میں اٹھا لی، اور حاضرین جلسہ کو سلام کرتے ہوئے بادشاہ کے قریب آکر بیٹھ گئے۔
جلسے میں موجود علماء نے سلطان سے کہا: "کیا ہم نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ رافضی علماء عقل سے کمزور ہوتے ہیں؟!”
سلطان نے کہا: اس نے جو جلسے میں وارد ہوتے وقت انجام دیا ہے خود اسی سے پوچھو۔
علماء نے علامہ حلّی سے پوچھا:
۱۔ کیوں تم سلطان کے سامنے جھکے نہیں اور سجدہ نہیں کیا؟ اور جلسہ کے آداب کا خیال نہیں رکھا؟
علامہ حلی نے جواب دیاا: "حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکومت کا سب سے بلند مرتبہ حاصل تھا اور لوگ صرف ان کو سلام کیا کرتے تھے، نہ یہ کہ ان کے سامنے سجدہ کریں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
(۔۔۔فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً) النور/۶۱
اور جب تم کسی گھر میں داخل ہو، تو اپنے اوپر سلام کرو، اللہ کی طرف سے ایک بابرکت اور پاکیزہ سلام کے طور پر۔
اور تمام علماء کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کے لئے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔
۲۔ انہوں نے کہا: کیوں تم نے ادب کا خیال نہیں رکھا اور سلطان کے پاس جا بیٹھے؟
علامہ نے جواب دیا: "سلطان کے پاس کے علاوہ، جلسہ میں کوئی جگہ خالی ہی نہ تھی” (علامہ جو کچھ بولتے جاتے، مترجم آپ کی باتوں کو باشاہ کے لئے ترجمہ کرتا جاتا تھا)
۳ – انہوں نے کہا: "تم اپنی نعلین ہاتھ میں اٹھا کر اپنے ساتھ کیوں لائے؟ کوئی عقلمند انسان ایسا نہیں کرسکتا”
علامہ حلّی نے جواب میں فرمایا: مجھے ڈر تھا کہیں حنفی مسلک کے لوگ میری نعلین چوری نہ کر لیں، جس طرح ابوحنیفہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین کی چوری کی تھی۔”
حنفی مسلک کے علماء نے کہا: یہ الزام درست نہیں ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ابو حنیفہ تو پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
علامہ نے کہا: "ارے نہیں، بھول گیا تھا، شافعی نے یہ چوری کی تھی”۔
تبھی شافعی علماء چلاّ پڑے: "غلط بات مت کرو، شافعی کی پیدائش تو ابو حنیفہ کی وفات پر ہوئی تھی۔”
علامہ حلّی نے کہا: "اوہ، میں غلط کہہ گیا، مالک نے یہ چوری کی تھی”۔
تو مالکی علماء چیخ اٹھے: "خاموش ہو جاؤ! مالک اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان تو سو سال سے بھی زیادہ کا فاصلہ تھا۔”
علامہ نے کہا: "پھر تو احمد حنبل نے ہی چوری کی ہوگی”۔
تو حنبلی علماء نے اس پر ہنگامہ مچانا شروع کردیا۔
تب علامہ حلّی نے سلطان خدابندہ کی طرف رخ کرکے کہا:
"آپ نے دیکھا کہ یہ خود مان رہے ہیں، کہ ان کے چاروں ائمہ میں سے کوئی ایک بھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے زمانے میں موجود نہیں تھا، تو پھر یہ کیسی بدعت ہے جو انہوں نے ایجاد کردی؟ اور انہوں نے اپنے مجتہدین میں سے چار افراد کو منتخب کر لیا۔ اب اگر کوئی فقیہ اور مجتہد جو ان سب سے بھی زیادہ جاننے والا، متقی اور پرہیزگار ہو، مگر اس کا فتویٰ ان کے فتویے کے مخالف ہو، تو وہ اس کے فتویے پر عمل نہیں کرتے؟!”
وہ عالم جس نے مغول بادشاہ کو شیعہ بنادیا
سلطان خدابنده نے علماء سے سوال کیا: "کیا واقعی میں چاروں مسلک کے اماموں میں سے کوئی ایک بھی آنحضرت اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھا؟”
انہوں نے کہا: ہاں۔ (وہ موجود نہیں تھے)
تب علامہ حلّی نے کہا: "شیعوں نے اپنے مذہب کو امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے حاصل کیا ہے، جو نفس رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور ان کے جانشین، چچازاد بھائی، وصی اور وزیر تھے۔”
سلطان خدابنده نے کہا: ان باتوں کو رہنے دیجئے، میں نے آپ کو ایک اہم مسئلے کے لئے یہاں دعوت دی ہے، اور وہ یہ ہے کہ: "کیا ایک مجلس میں تین طلاق واقع ہوجاتی ہے؟”
علامہ حلّی نے جواب دیا: آپ کی طلاق باطل ہے، کیونکہ اس کے شرائط پورے نہیں ہوئے، اس لئے کہ اس کی ایک شرط یہ ہے کہ دو عادل افراد نے سنا ہو، کیا کسی دو عادل افراد نے اس کو سنا ہے؟”
سلطان نے کہا: نہیں۔
علامہ نے فرمایا: "تو پھر یہ طلاق واقع نہیں ہوئی، اور آپ کی بیوی آپ پر حلال ہے”۔ (اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک ہی نشست میں تین بار طلاق، ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہے۔ زندگی کوئی مذاق نہیں کہ جب بھی غصہ آئے فیصلہ سنا دیا جائے)
سلطان خدابنده علامہ حلی سے بے انتہا متاثر ہوئے۔ انہوں نے جلسہ میں حاضر علماء سے بحث و مناظرہ جاری رکھا اور سب کو قائل کرنے میں کامیاب رہے۔ خدابنده نے اسی جلسے میں شیعہ مذہب کو اختیار کر لیا۔
علامہ کی برکتیں ایران میں
بیشک علامہ حلّی نے کتنی عظیم خدمت انجام دی کہ اگر ان کے لیے اس کے سوا کوئی اور فضیلت نہ بھی ہوتی، تو ان کے مقام و مرتبہ میں ان کی یہی ایک فضیلت کافی تھی۔
اور اس کے بعد علامہ حلّی سلطان محمد خدابندہ کی خاص توجہ کا مرکز بن گئے، اور اسلام کو فروغ دینے اور تشیع کے ارکان کو مضبوط کرنے کے لیے حکومتی اختیارات اور وسائل کا بھرپور طریقہ سے استعمال کیا۔
سلطان نے علامہ سے درخواست کی کہ ایک ایسی کتاب تحریر فرمائیں جس سے ہم تشیع کو اچھی طرح سمجھ سکیں، تو علامہ حلّی نے "مفتاح الکرام” نامی کتاب تحریر فرمائی۔
اس کتاب کے ذریعہ تمام امراء اور سارے مغول شیعہ ہو گئے، اور ان کی بھانجی بی بی گوہرشاد خاتون نے حضرت امام رضا علیہالسلام کی محبت میں مشہد مقدس میں صحنِ گوہرشاد بنوایا۔
سلطان خدا بنده علامہ کے اس قدر عقیدتمند ہوئے کہ انہوں نے کہا کہ: میں جہاں کہیں بھی جاؤں، آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ میرے ساتھ ہی رہیں تاکہ میں آپ کی ملاقات سے محروم نہ رہوں۔”
وہ گنبد جو حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے جسم مبارک کی تدفین کے لیے بنایا گیا!
اور یہ علامہ کا ہی مغول سلطان پر اثر تھا، جس کی بنا پر انھوں نے زنجان کے سلطانیہ میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی محبت میں فیروزی رنگ کا محل تعمیر کروایا۔
اس شاندار اور غیر معمولی گنبد کی تعمیر کا مقصد یہ تھا، کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے پیکر اطہر کو وہاں پر منتقل کرایا جائے۔ جو زنجان شہر سے ۳۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور دنیا کے سب سے بڑے اینٹوں کے گنبد کے طور پر جانا جاتا ہے۔
لیکن وہ ایک رات جب نجف جانے کا ارادہ رکھتے تھے، انہوں نے حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کو خواب میں دیکھا، آپ علیہ السلام نے ترکی زبان میں ان سے فرمایا: "سلطان خدا بنده، سَندَکی سَندَہ، مَندَکی مَندَہ”۔ (سلطان خدا بنده، تمہارا تمہارے پاس ہے، میرا بھی میرے پاس ہے)
تو سلطان نے حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے جسم اطہر کو منتقل کرنے کے ارادہ کو ترک کردیا، اور نجف اور کربلا کی کچھ مٹی سلطانیہ میں منگوائی اور گنبد کے ایک حصّے کو اس مٹی سے تعمیر کرایا، جو تربت خانہ کے نام سے مشہور ہے۔ سلطان نے وصیت کی تھی کہ انہیں اس کے تہ خانے میں دفن کیا جائے۔ گنبد کی تعمیر کے مکمل ہونے کے دو سال بعد، ۳۴ سال کی عمر میں ایک بیماری کی وجہ ان کا انتقال ہوا، لہٰذا انہیں اسی سلطانیہ کے محل میں دفن کیا گیا۔
اولجایتو (سلطان محمد خدابندہ) کے مذہبی رجحانات
سلطان محمد خدابندہ کی والدہ عیسائی مذہب سے تھیں اور انہوں نے بچپن میں انہیں غسل تعمید دے کر ان کا نام نیکلا رکھا تھا۔ لیکن خدابندہ نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ایک مسلمان خاتون سے شادی کی، جس نے اسی وقت ان کو مسلمان (سنی) بنا دیا۔
خدابندہ نے خراسان کے حنفی علماء کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حنفی مسلک کو اختیار کیا اور باضابطہ طور پر مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے اپنے سکّوں پر خلیفہ اول کا نام بھی کندہ کرایا اور اس مسلک کے علماء کی حمایت کی۔
اولجایتو کی حنفی مسلک سے عقیدت کی وجہ سے اس مسلک کے علماء کو دوسرے مسالک پر تنقید اور بدگوئی اور ان کے پیروکاروں کو تنگ کرنے پر جرأت مل گئی۔
لیکن خود اولجایتو کوئی فرقہ پرست اور متعصب شخص نہیں تھے، اسی بنا پر انہوں نے شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے خواجہ رشید الدین فضل اللہ کی ترغیب سے، نظام الدین عبدالملک مراغہ ای شافعی، کو پورے ایران کا قاضی القضات مقرر کیا اور تمام مسالک کے پیروکاروں کو ان کے ماتحت قرار دیا۔
بعد میں بہت کوشش ہوئی کہ اولجایتو کو اس راستے سے ہٹایا جائے اور شیعوں کے اثر و رسوخ کو کم کیا جائے، مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
سلطان محمد خدابنده (اولجایتو) کا تشیع کے فروغ میں کردار
ان کے دور میں مذہب تشیع کو کافی فروغ ملا۔ اس مذہب کے چند علماء جو بحرین اور عراق کے علاقوں میں روپوش تھے، انہوں نے رفتہ رفتہ ایک تحریک کا آغاز کیا۔ اور مخالفین کے عقائد کی رد اور شیعہ مذہب کے فروغ میں متعدد کتابیں لکھیں، اور مستقبل کے لئے مضبوط بنیادیں قائم فرمائیں، اس تحریک میں علامہ حلّی کا کردار سب سے زیادہ نمایاں رہا۔
سلطان نے خود بھی شیعہ مذہب اختیار کیا اور علماء کو مختلف علاقوں اور شہروں کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ بارہ اماموں کے نام سے خطبہ پڑھیں اور مساجد و عبادت گاہوں پر ان کے أسماء تحریر کرائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سلطان خدابندہ اور علامہ حلی دونوں نے ایک ہی سال، یعنی سنہ ۷۲۶ ہجری میں وفات پائی!
علامہ کی حلّہ میں واپسی اور وفات
علامہ حلی سلطان محمد خدابندہ کے انتقال پر اور بیت اللہ الحرام کی زیارت کے بعد حلّہ واپس آگئے۔ اور ۷۸ سال کی عمر میں، ۲۱ محرم الحرام، بروز شنبہ، سنہ ۷۲۶ ہجری قمری کو دنیائے فانی سے رخصت ہوئے اور خدا کی بارگاہ میں پہونچ گئے۔
آپ کے جسد اطہر کو نجف اشرف لایا گیا اور حرم مطہر علوی میں حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے روضے کے قریب دفن کیا گیا، جو لوگ حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے مرقد مطہر کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے ہیں، وہ علامہ حلّی کے مزار کے پاس ٹھہر کر عرض ادب کیا کرتے ہیں۔
علامہ حلی کا ایک خوبصورت وصيت نامہ اپنے بیٹے کے نام
علامہ حلی نے اپنی کتاب قواعد الاحکام کے آخر میں اپنے بیٹے کے لیے ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا، جو بہت ہی عمدہ اخلاقی اوصاف پر مشتمل ہے۔
علامہ کے اس دلچسپ وصیت نامہ کے چند اقتباس یہاں پر پیش کیے جارہے ہیں۔
۔۔۔میں تمہیں وصیت کرتا ہوں — جیسا کہ خداوند نے مجھ پر وصیت کو فرض کیا ہے — خدا کا تقوی اختیار کرنے کی، کیونکہ تقویٰ ایک ایسی سنت ہے جو ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی ہے، ایک فریضہ ہے جو لازم و واجب ہے، ایک حفاظت کرنے والی سپر ہے، ہمیشہ باقی رہنے والا خزانہ ہے، اور وہ سب سے بہترین چیز ہے جو انسان روز قیامت کے لیے مہیا کرتا ہے۔
الہی احکام کی پابندی کرنا اور وہ کام جو خدا کو خوشنود کرے انجام دینا۔
اپنے وقت کو علمی فضائل و کمالات کے حصول میں لگانا، اور ہمیشہ کوشش کرنا کہ نقصان کے نشیب میں جانے کے بجائے کمال کی بلندیوں پر چڑھو، اور جہالت کی کھائی سے عرفان کی چوٹی تک پہونچو۔
میں تمہیں وصیت کرتا ہوں نیک عمل انجام دینے کی، بھائیوں کی مدد کرنے کی، برائی کے بدلے بھلائی کرنے کی، اور نیک لوگوں کے احسانمند ہونے کی۔ اور خبردار نادانوں اور پست فطرت لوگوں سے دوستی نہ کرنا، بلکہ ہمیشہ صاحبان علم و فضل کے ساتھ رہنا کیونکہ ایسی صحبت، کمالات کے حصول کی راہ میں تمہاری صلاحیت کو بڑھائے گی اور تمہارے اندر ایسی مہارت پیدا کرے گی جس سے تم اپنی ناواقفیت کو پہچان سکو۔
تمہارا آج کا دن تمہارے کل کے دن سے بہتر رہے۔ میں تمہیں صبر، توکل اور رضا کی نصیحت کرتا ہوں۔ ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا۔
خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا۔۔ اور تم پر لازم ہے کہ نماز شب کی پابندی کرو کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے اس کی تاکید کی ہے اور فرمایا ہے: جو شخص اپنی رات نماز شب کے ساتھ ختم کرے اور پھر وفات پاجائے، اس کے لیے جنت ہے۔
تم پر لازم ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور احسان کرو (صلۂ رحمی) کیونکہ یہ عمر میں اضافہ کا سبب ہوگا۔ اور میں تمہیں نیک اخلاق کی وصیت کرتا ہوں۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: انكم لن تسعوا الناس باموالكم فسعوهم باخلاقكم.
تم اپنے مال کے ذریعہ لوگوں کو راضی نہیں رکھ سکتے، لہٰذا انہیں اپنے اخلاق سے خوش رکھو۔
آل پیمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ نیکی کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ نیکی کو لازم قرار دیا ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی رسالت اور ہدایت کا اجر قرار دیا ہے۔
جیسا کہ خدا فرماتا ہے: قل لااسئلكم عليه اجرا الا المودة فی القربي۔ الشوری/۲۳
اے رسول کہہ دیجئے! میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے میرے قرابتداروں سے محبت اور مودت کے
فقہاء اور علماء کا احترام اور اکرام کرنا کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا ہے: من اكرم فقیها مسلما لقی الله يوم القيامة و هو عنه راض و من اهان فقيها مسلما لقی الله يوم القيامة و هو عليه غضبان.
جو شخص مسلمان فقیہ کا اکرام کرے گا، وہ قیامت کے دن خدا سے اس طرح ملاقات کرے گا کہ وہ اس سے راضی ہوگا، اور جو کسی مسلمان فقیہ کی اہانت کرے گا، وہ خدا سے روز قیامت اس طرح ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔
اور خبردار! علم کو مخفی نہ رکھنا اور اسے چھپانا نہیں، اور اسے اس کے اہل سے دور نہ رکھنا۔ کیونکہ خدا فرماتا ہے: ان الذين يكتمون ما انزلنا من البينات و الهدي من بعد ما بيناه للناس في الكتاب اولئك يلعنهم الله و يلعنهم اللاعنون. البقره/۱۵۹
بیشک جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی حُھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں
قرآنِ کریم کی تلاوت کیا کرو اور آیات کے معانی پر غور و فکر کرو، اور اس کے احکام پر عمل کرو۔
حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے اقوال، احادیث اور آثار کا مطالعہ کرنا اور ان کے معانی پر غور و خوض کرنا اور باریک بینی سے کام لینا۔ میں نے تمہارے لیے بہت سی کتابیں یادگار کے طور پر چھوڑی ہیں، جن کو تم پڑھ سکتے ہو اور اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
اور جو تم میرے حق میں کچھ کر سکتے ہو، وہ یہ ہے کہ مجھ سے وعدہ کرو کہ بعض اوقات میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروگے، اپنی کچھ نیکیوں کا ثواب مجھے بخش دو گے۔ اور میری یاد میں کمی نہ کرنا کہ وفا شعار لوگ تمہیں بے وفا سمجھنے لگیں۔
اور حد سے زیادہ بھی مجھے یاد نہ کرنا، کہ اہلِ فہم و دانش تمہیں عاجز اور کمزور قرار دیں۔ بلکہ خلوت میں مجھے یاد کرنا، اور اپنی نمازوں کے بعد میرے لیے دعا کیا کرنا۔