سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

حضرتِ زہرا سلام‌اللہ‌علیہا کی افضلیت؛ اہلِ سنت کے بڑے مفسِّر شھاب الدین آلوسی کا موقف

حضرتِ زہرا سلام‌اللہ‌علیہا کی افضلیت؛ اہلِ سنت کے بڑے مفسِّر شھاب الدین آلوسی کا موقف

اسلامی علوم کی تاریخ میں، حضرتِ فاطمہ زہرا سلام‌اللہ‌علیہا کی فضیلت کا موضوع ہمیشہ سے تفسیری اور کلامی مباحث میں زیرِ بحث رہا ہے۔

مقدمہ

اسلامی علوم کی تاریخ میں، حضرتِ فاطمہ زہرا سلام‌اللہ‌علیہا کی فضیلت کا موضوع ہمیشہ سے تفسیری اور کلامی مباحث میں زیرِ بحث رہا ہے۔

اس ضمن میں، اہلِ سنت کے نامور عالم اور عظیم تفسیری مجموعے "تفسیرِ روح المعانی” کے مصنف، شھاب الدین آلوسی (متوفی 1270 ہجری) نے اس موضوع پر اعتدال، تنقید اور احترام کا مرکب موقف اپنایا۔ آلوسی، اشعری مکتبِ کلام سے منسلک تھے، ان کی تفسیر اہلِ سنت میں فخرِ رازی کے بعد ایک سنگِ میل سمجھی جاتی ہے، جو ان کے علمی مرتب کی گواہ ہے۔  ذیل میں اُن کے نظریات اور دلائل کو سادہ، منظم اور قارئین کے لیے قابلِِ فہم انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔[1]

فضیلت پر آلوسی کا حتمی موقف

اہلبیتِ اطہار علیہم‌السلام کی منزلت کے اعتراف میں آلوسی کا فکری رجحان نمایاں طور پر متوازن نظر آتا ہے۔ وہ ایک طرف، امامت و خلافت پر کیے گئے کلامی اعتراضات کو نقل کرتے ہیں، لیکن دوسری جانب، آیتِ تطہیر اور سورۂ کوثر جیسے بنیادی نصوص کی تشریح میں شیعہ تشریحات کے قریب نظر آتے ہیں۔ فضیلتِ نسواں کے مسئلے پر، آلوسی کا حتمی اعلان قطعی اور دوٹوک ہے۔ آلوسی صریحاً لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک حضرتِ فاطمہ زہرا سلام‌اللہ‌علیہا کا مقام، جلالت ماضی و مستقبل کی جملہ خواتین حتی عائشہ سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ یہ فضیلت محض آپ کے رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے جسدِ اطہر کا جزو ہونے کی بنا پر نہیں، بلکہ متعدد دلائلِ نقلیہ اور عقلیہ کی رو سے بھی ثابت ہے۔

(وإلى هذا ذهب أبو جعفر رضي الله تعالى عنه وهو المشهور عن أئمة أهل البيت والذي أميل إليه أن فاطمة البتول أفضل النساء المتقدمات والمتأخرات من حيث إنها بضعة رسول الله صلّى الله تعالى عليه وسلم بل ومن حيثيات أخر أيضا، … ومن هنا يعلم أفضليتها على عائشة رضي الله تعالى عنها الذاهب إلى خلافها الكثير محتجين۔[2]

اعتراضات کا عالمانہ جواب

آلوسی نے ان منسوبہ روایات پر بھی سنجیدہ تبصرے کیے جو بظاہر دیگر صحابیات کے لیے مطلق افضلیت کا تاثر دیتی ہیں۔

1- حدیثِ "دو تہائی دین حمیرا (عائشہ) سے لو” — آلوسی کا جواب: اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تب بھی یہ عائشہ کی مخصوص علمی حالت بتاتی ہے، نہ کہ مطلق فضیلت۔ مزید برآں،

شاید پیغمبر صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے زہرا (سلام‌اللہ‌علیھا) کی کم عمر کا علم رکھنے کی وجہ سے ان کے بارے میں ایسی حدیث نہیں فرمائی، اگر آنحضرت صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کو ان کی زیادہ عمر‌‌ پر یقین ہوتا تو شاید آپ فرماتے کہ” اپنا پورا کا پورا دین زہرا (‌سلام‌اللہ‌علیھا) سے لو۔

(وأنت تعلم ما في هذا الاستدلال وأنه ليس بنص على أفضلية الحميراء على الزهراء، وأما أولا فلأن قصارى ما في الحديث الأول على تقدير ثبوته إثبات أنها عالمة إلى حيث يؤخذ منها ثلثا الدين، وهذا لا يدل على نفي العلم المماثل لعلمها عن بضعته عليه الصلاة والسلام، ولعلمه صلى الله تعالى عليه وسلم أنها لا تبقى بعده زمنا معتدا به يمكن أخذ الدين منها فيه لم يقل فيها ذلك، ولو علم لربما قال: خذوا كل دينكم عن الزهراء۔[3]

2- حدیثِ "عائشہ کو عورتوں پر ایسے ہی فضلیت حاصل ہے جیسے کہ ثرید کو بقیہ کھانوں پر” آلوسی کہتے ہیں کہ یہ حدیث بقیہ احادیث سے ٹکرا رہی ہے، جیسے کہ ایک حدیث میں ہے: میری امت کی عورتوں پر خدیجہ سلام‌الله‌علیها کی فضلیت ایسی ہی ہے جیسے کہ مریم کی پورے عالَم کی عورتوں پر فضیلت۔

(وأما ثانيا فلأن الحديث الثاني معارض بما يدل على أفضلية غيرها رضي الله تعالى عنها عليها،

فقد أخرج ابن جرير عن عمار بن سعد أنه قال: «قال لي رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم: فضلت خديجة على نساء أمتي كما فضلت مريم على نساء العالمين»

بل هذا الحديث أظهر في الأفضلية وأكمل في المدح عند من انجاب عن عين بصيرته عين التعصب والتعسف لأن ذلك الخبر وإن كان ظاهرا في الأفضلية لكنه قيل ولو على بعد: إن- أل- في النساء فيه للعهد والمراد بها الأزواج الطاهرات الموجودات حين الاخبار ولم يقل مثل ذلك في هذا الحديث۔[4]

3- حدیث "عائشہ جنت میں رسول صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے ساتھ ہوں گی جبکہ فاطمہ سلام‌اللہ‌علیھا اپنے شوہر علی(‌علیہ‌السلام) کے ساتھ ہوں گی اور آنحضرت (صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ) کا مقام سب سے بلند ہے۔” آلوسی اعتراض کرتے ہیں کہ یہ معیار درست نہیں ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پیغمبر صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کی بقیہ ساری بیویوں کو بھی تمام انبیا و مرسلین سے افضل ہونا چاہیے تھا حالانکہ کسی کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔

(وأما ثالثا فلأن الدليل الثالث يستدعي أن يكون سائر زوجات النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أفضل من سائر الأنبياء والمرسلين عليهم الصلاة والسلام لأن مقامهم بلا ريب ليس كمقام صاحب المقام المحمود صلى الله تعالى عليه وسلم فلو كانت الشركة في المنزل مستدعية للأفضلية لزم ذلك قطعا ولا قائل به۔[5]

آلوسی کی آخری اور قطعی نظر

"اس کے باوجود میرا عقیدہ ہے کہ فاطمہ (سلام‌اللہ‌علیھا) تمام عورتوں سے برتر ہیں اور اللہ ہی بہترین راستے کی ہدایت کرنے والا ہے”۔

(وبعد هذا كله الذي يدور في خلدي أن أفضل النساء فاطمة. ثم أمها، ثم عائشة. بل لو قال قائل إن سائر بنات النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أفضل من عائشة لا أرى عليه بأسا، وعندي بين مريم. وفاطمة توقف نظرا للأفضلية المطلقة، وأما بالنظر إلى الحيثية فقد علمت ما أميل إليه۔[6]

پھر کہتے ہیں کچھ اہلِ سنت علما جیسے امام سبکی، بلقینی، اور ابنِ عماد نے بھی فضیلتِ مرتبہ کی ترتیب میں فاطمہ و خدیجہ کو بلندی پر رکھا ہے، حالانکہ اندازِ دلائل میں اختلافات ملتے ہیں۔ بعض محققین نے اس موضع پر احتیاط اختیار کی ہے کیونکہ دلائل آپس میں متصادم نظر آتے ہیں۔

(وقد سئل الإمام السبكي عن هذه المسألة فقال: الذي نختاره وندين الله تعالى به أن فاطمة بنت محمد صلى الله تعالى عليه وسلم أفضل. ثم أمها. ثم عائشة- ووافقه في ذلك البلقيني- وقد صحح ابن العماد أن خديجة أيضا أفضل من عائشة لما ثبت أنه عليه الصلاة والسلام قال لعائشة حين قالت: قد رزقك الله تعالى خيرا منها، فقال لها: لا والله ما رزقني الله تعالى خيرا منها آمنت بي حين كذبني الناس وأعطتني مالها حين حرمني الناس.

وأيد هذا بأن عائشة أقرأها السلام النبي صلى الله تعالى عليه وسلم من جبريل، وخديجة أقرأها السلام جبريل من ربها، وبعضهم لما رأى تعارض الأدلة في هذه المسألة توقف فيها- وإلى التوقف مال القاضي أبو جعفر الستروشني منا- وذهب ابن جماعة إلى أنه المذهب الأسلم۔[7]

نتیجہ

نتیجتاً، امیرالمؤمنین علیه‌السلام کی شریکِ حیات کی منقبت میں آلوسی کا کلام، ایک حتمی عقیدے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا اختتامی قول یہ ہے کہ اختلافِ روایات کے باوجود، میرا ایمان یہی ہے کہ حضرتِ فاطمہ زہرا سلام‌اللہ‌علیہا باقی عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہی بہترین ہادی اور صاحبِ توفیق ہے۔

[1] ۔ تفسير روح المعاني، ط دار العلمية، جلد 2، ص 149 و ص 150
[2] ۔ تفسير روح المعاني، ط دار العلمية، جلد 2، ص 14
[3] ۔ تفسير روح المعاني، ط دار العلمية، جلد 2، ص 150
[4] ۔ تفسير روح المعاني، ط دار العلمية، جلد 2، ص 150
[5]  تفسير روح المعاني، ط دار العلمية، جلد 2، ص 150
[6] ۔ تفسير روح المعاني، ط دار العلمية، جلد 2، ص 150
[7] ۔ تفسير روح المعاني، ط دار العلمية، جلد2، ص 150

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے