سیدۃ نساء العالمین، بضعۃ الرسول، حضرتِ فاطمہ زہرا سلاماللہعلیھا کی حیاتِ طیبہ اور ارشادات، رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
آپ سلاماللہعلیھا نے نہایت مختصر مگر جامع کلمات میں تہذیبِ نفس، اخلاقی بلندیوں کا حاصل کرنے اور معاشرتی فلاح کے وہ دائمی اصول عطا فرمائے ہیں جو ہر دور کے انسان کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہیں، یہ کلمات انسانی زندگی کے ہر گوشے کو منور کرنے والی روحانی بصیرت کا خزانہ ہیں۔
خدمت، اخلاص اور معرفتِ وقت
سب سے پہلے، آپ سلاماللہعلیھا نے ماں کی خدمت کو جنت کا لازمی وسیلہ قرار دیا،فرمایا: "جنت ماں کے قدموں تلے ہے[1]” پس جو شخص اس عظیم رشتے کی خدمت میں مخلص ہو، وہ درحقیقت رضائے الٰہی کی منزل پا لیتا ہے۔
آپ نے عمل کی روح یعنی اخلاص کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ عبادت کو خلوصِ نیت کے ساتھ بجا لاؤ تاکہ اللہ اپنی برکتیں تم پر نازل کرے[2] ،اخلاص وہ خزانہ ہے جو عمل کو نورانیت عطا کرتا ہے اور قلیل عمل کو بھی بارگاہِ ایزدی میں شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔
آپ نے دعا کی قبولیت کا ایک خاص وقت بھی بیان فرمایا: "جمعہ کے روز غروبِ آفتاب کے وقت، جب سورج نصف غروب ہو چکا ہو، وہ گھڑی قبولیتِ دعا کی ہے[3] ، یہ معرفتِ وقت کی تعلیم ہے تاکہ بندہ ان مخصوص روحانی لمحات میں اپنے خالق سے مناجات کر سکے۔
حقیقی تشیع اور معاشرتی اخلاق
ایک اور موقع پر آپ نے حقیقی تشیع کی بنیاد کو واضح فرمایا: "ہم اہلبیت علیہمالسلام کے فرامین پر عمل کرو اور جن باتوں سے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرو تاکہ ہمارے شیعہ شمار ہو سکو” [4] یعنی نسبت کا معیار محض دعویٰ نہیں، بلکہ کردار و عمل کی مکمل مطابقت ہے۔
معاشرتی حقوق کے ضمن میں آپ نے ایثار کا بے مثال درس دیا: "پہلے مومن پڑوسی، پھر خود”[5] انسان کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ضرورت پر دوسرے مومنین کی حاجت کو مقدم نہ رکھے۔
اور آخر میں، اخلاقیات کے باب میں ارشاد فرمایا: "خوش اخلاقی جنت میں جانے کا سبب ہے”[6] بندے کا بہترین زادِ راہ اس کا حُسنِ خُلق ہے، کہ یہی کمالِ ایمان اور حقیقی معیارِ بندگی ہے۔
نتیجہ
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرتِ فاطمہ زہرا سلاماللہعلیھا کی یہ بصیرت افروز نصیحتیں، حقیقی اور کامل بندگی کا ایک جامع منشور ہیں۔ ان میں اخلاق، عبادت، اخلاص، خدمت، اور ایثار جیسے بنیادی اوصاف کو زندگی کا محور قرار دیا گیا ہے، جو شخص ان نورانی ہدایات پر عمل پیرا ہو، وہ نہ صرف اپنے نفس کو سنوارتا ہے بلکہ رضائے الٰہی کے اعلیٰ ترین راستے پر گامزن ہو جاتا ہے۔
[1] ۔ مستدرک الوسائل، جلد 15، ص 180
[2] ۔ بحارالانوار، جلد 67، ص 249
[3] ۔ دلائل الامامۃ، ص 71
[4] ۔ تفسیر الامام العسکری علیهالسلام، ص 320
[5] ۔ عللالشرایع، جلد 1، ص 183
[6] ۔ بحارالانوار، جلد 75، ص 401
