سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمومنین علیہ‌السلام قرآن کی روشنی میں

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام قرآن مجید کی روشنی میں

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شان و مقام اور آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کی ضرورت کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شان و منزلت اور آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کے لازم ہونے کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی فضیلتوں، کرامتوں اور آپ کی اطاعت کے لازم ہونے کے بارے میں بے شمار آیات نازل ہوئی ہیں۔

عبداللہ ابن عباس ان آیات کے بارے میں فرماتے ہیں:قرآن مجید میں جتنی آیتیں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں اتنی کسی دوسری شخصیت کے بارے میں نازل نہیں ہوئیں

طبرانی اور ابن ابو حاتم نے ابن عباس سے نقل کیا ہ کہ آیہ مبارکہ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا” میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی مانند کوئی بھی شخص اس آیت کا مستحق نہیں ہے، کیونکہ آپ مؤمنین کے سربراہ، ولی اور امیر ہیں،اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی‌الله‌علیه‌وآلہ کے اصحاب کو عتاب فرمایا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ہی خیر کے ذکر کے لائق ہیں، نہ کوئی اور۔

چونکہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے متعدد محدثین اور مفسرین نے ان آیات کی موضوع بندی کی ہے، جن میں الجلودی، طبرانی، ابو نعیم، محمد بن مومن شیرازی، حسکانی، ابو الفرج اصفہانی، حبری، مرزبانی، ابو اسحاق ثقفی، ابو جعفر قمی، المجاشیعی، ابو عبداللہ خراسانی وغیرہ شامل ہیں۔

ذیل میں ان میں سے چند اہم آیات کا ذکر کیا جاتا ہے:

  1. سورہ مبارکہ "ہل أتی” جو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، حضرت فاطمہ سلام‌اللہ‌علیہا اور امام حسن و امام حسین علیہماالسلام کی شان میں نازل ہوا ہے۔
  2. آیت "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ"[1]
    (ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں)یہ آیۂ ولایت کے نام سے مشہور ہے، شیعہ و سنی مفسرین اور محدثین کا متفقہ نظریہ ہے کہ یہ آیت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شان میں نازل ہوئی۔
  3. آیت "قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ"[2]
    (آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو)یہ آیۂ مودت کے نام سے مشہور ہے، جس میں "قربی” سے مراد امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، حضرت فاطمہ سلام‌اللہ‌علیہا ، امام حسن و امام حسین علیہماالسلام اور امام حسین علیہ‌السلام کی اولاد یعنی ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں۔
  4. آیت "وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ"[3]
    (قسم ہے ستارہ کی جب وہ ٹوٹا)
    اس آیۂ مبارکہ کے بارے میں شیعہ و سنی دونوں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآلہ نے فرمایا: "یہ ستارہ جس کے گھر پر اترے گا، وہی میرے بعد مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا۔” یہ ستارہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے گھر پر اترا، منافقین کہنے لگے: "پیغمبر صلی‌الله‌علیه‌وآلہ اپنے چچا زاد بھائی کے جال میں پھنس گئے ہیں اور یہ بات انہوں نے ہوا و ہوس میں کہی ہے۔” اس پر یہ آیت نازل ہوئی: "وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ"[4]

(قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا، تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا، اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے، اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے)

  1. آیت "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ"[5]
    (اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا)

یہ آیۂ تبلیغ کے نام سے مشہور ہے جو واقعہ غدیر سے پہلے نازل ہوئی اور پیغمبر اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآلہ نے اس پر عمل کرتے ہوئے امیرالمومنین علیہ‌السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا:
"مَن کُنتُ مَولَاہُ فَہَذَا عَلِیٌّ مَولَاہُ
(جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علی مولا ہیں)۔
سیوطی نے نقل کیا ہے کہ بعض صحابہ کے قول کے مطابق یہ آیت اس طرح نازل ہوئی: "اے رسول! جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اسے پہنچا دیجئے کہ یہ علی علیہ‌السلام مؤمنین کے مولا ہیں۔

  1. آیت "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي"[6]
    (آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے)
    یہ آیۂ مبارکہ واقعہ غدیر کے بعد نازل ہوئی، یعنی جب رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآلہ نے غدیر خم میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا، اس کے بعد۔
  2. آیت "وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ"[7]
    (اور محفوظ رکھنے والے کان سن لیں)
    اس آیت کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآلہ نے امیرالمومنین علیہ‌السلام کی طرف رخ کرکے فرمایا: "یہ کان آپ کا ہے۔”
  3. آیت "وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ"[8]
    (اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں، وہی اللہ کی بارگاہ کے مقرب ہیں)اس آیۂ شریفہ کے بارے میں آیا ہے کہ "سابقون” تین قسم کے لوگ ہیں، ابن عباس سے روایت ہے: "جناب یوشع بن نون علیہ‌السلام جناب موسیٰ علیہ‌السلام کے بعد آئے، صاحب یاسین عیسیٰ علیہ‌السلام کے بعد آئے اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام محمد مصفطیٰ صلی‌الله‌علیه‌وآلہ کے بعد جانشین ہوئے۔”[9]

ایک اور حدیث میں آیا ہے: ” السابقون السابقون ” چار افراد ہیں: مقتول ہابیل ابن آدم ، جناب موسیٰ علیہ‌السلام کی امت کے سابق جو آل فرعون میں سے تھے اور خدا پر ایمان لائے، جناب عیسیٰ علیہ‌السلام کی امت کے سابق جو حبیب النجار ہیں اور محمد مصطفی صلی‌الله‌علیه‌وآلہ کی امت کے سابق جو علی بن ابی طالب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ہیں۔

  1. آیت "أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"[10]

(کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور راہِ خدا میں جہاد کرتا ہے)

یہ آیۂ مبارکہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، عباس اور شیبہ کے بارے میں نازل ہوئی، عباس نے کہا: میں افضل ہوں کیونکہ میں حجاج بیت اللہ کو سیراب کرتا ہوں ہوں، شیبہ نے کہا: میں برتر ہوں کیونکہ مسجد الحرام کی تعمیر میرے ذمہ ہے، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے فرمایا: میں اس سے برتر ہوں کہ میں تم سے پہلے اسلام لایا، ہجرت کی اور جہاد کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

  1. آیت "أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ"[11]

(کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہے اس جیسا ہوجائے گا جو فاسق ہے، ہرگز دونوں برابر نہیں ہوسکتے)

یہ آیت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اور ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی، ابن عباس سے روایت ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اور ولید بن عقبہ کے درمیان بحث ہوئی جس میں آپ نے اس سے فرمایا: اے فاسق! اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

  1. آیت "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً"[12]

(ایمان والو جب بھی رسول سے کوئی راز کی بات کرو تو پہلے صدقہ نکالو)
اس آیہ مبارکہ پر صرف امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے عمل کیا، جیسا کہ آپ نے فرمایا: اللہ کی کتاب میں ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا، میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں بدلا، جب بھی میں رسول اللہ صلی‌الله‌علیه‌وآلہ سے نجویٰ کرنا چاہتا، ایک درہم صدقہ دیتا تھا

  1. آیت "إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا"[13]
    (بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دیے عنقریب رحمان لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کردے گا)
    ’’ود‘‘ کے نام سے مشہور یہ آیۂ مبارکہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شان میں نازل ہوئی۔

تفسیرِ ثعلبی، سبط ابن جوزی کی کتاب تذکرۃ الخواص اور سیوطی کی الدرالمنثور میں بھی آیا ہے، اس کے مطابق اللہ تعالیٰ دوسروں کے دلوں میں مؤمنین کی محبت ڈال دیتا ہے، بعض روایات کے مطابق، پیغمبر صلی‌الله‌علیه‌وآلہ نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام سے فرمایا کہ دعا کریں کہ خدایا! مومنین کے دلوں میں میری محبت ڈال دے، اس دعا کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔

  1. آیت "إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ"[14]
    (اور بے شک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال انجام دیے ہیں وہ بہترین مخلوق ہیں)
    یہ آیۂ مبارکہ ’’خیر البریہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، تفسیر الدرالمنثور وغیرہ میں اس کی شرح موجود ہے، یہ آیت ان لوگوں کو بہترین مخلوق قرار دیتی ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل انجام دیتے ہیں، شیعہ و سنی روایات کے مطابق، یہ گروہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اور ان کے شیعہ ہیں۔
  2. آیت "وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ"[15]

(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں پہچان لیں گے )

ابو سعید خدری سے منقول ہے کہ اس آیت میں مراد امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ‌السلام ہیں۔

  1. آیت "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"[16]
    (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھم السّلام کہ آپ سے ہر برائی کو دور رکھے اور آپ کو اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے)
    یہ آیۂ مبارکہ ’’آیت تطہیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے، شیعہ مفسرین کے مطابق یہ آیت اصحاب کساء کے بارے میں نازل ہوئی، جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت علیہم السلام کی پاکی کا ارادہ ظاہر فرمایا، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر صلی‌الله‌علیه‌وآلہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ایک چادر کے نیچے جمع تھے،جناب ام سلمہ سے روایت ہے کہ یہ آیت ان پانچ افراد کی شان میں نازل ہوئی۔
  2. آیت "وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ"[17]

(اگر اس کے خلاف اتفاق کرو گی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبریل اور نیک مومنین )

یہ آیۂ مبارکہ ’’صالح المؤمنین’’ کے نام سے مشہور ہے، ابن عباس سے روایت ہے کہ "صالح المومنین” کے مصداق حضرت علی بن ابی طالب اامیرالمؤمنین علیہ‌السلام ہیں، جیسا کہ الدرالمنثور میں بھی اشارہ کیا گیا ہے، اسماء بنت عمیس سے بھی روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی‌الله‌علیه‌وآلہ کو فرماتے سنا: وصالح المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ‌السلام ہیں۔

  1. آیت "وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ"[18]

(اور جو شخص صداقت کا پیغام لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی)

اس آیۂ مبارکہ کے بارے میں مجاہد سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآلہ صدق لے کر آئے (رسالت لے کر آئے) اور علی بن ابی طالب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے ان کی تصدیق کی، جیسا کہ تاریخ ابن عساکر، کفایۃ الطالب گنجی، تفسیر قرطبی میں بھی مذکور ہے اور ابو ہریرہ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

  1. آیت "أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ"[19]
    (کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے اس کا گواہ بھی ہے)

اس آیۂ مبارکہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے فرمایا: رسول اللہ صلی‌الله‌علیه‌وآلہ اللہ تعالی کی طرف سے حجت لے کر آئے ہیں اور میں وہ گواہ ہوں جو اس حجت کی تلاوت کرتا ہوں اور اس کی پیروی کرتا ہوں، یہ قول ینابیع المودۃ اور الدرالمنثور میں بھی موجود ہے۔

  1. آیت "إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ” (البقرہ:124)

( ہم آپ کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں،انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدۂ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا)

اس آیۂ مبارکہ کے بارے میں رسول اللہ صلی‌الله‌علیه‌وآلہ نے فرمایا: میرے باپ ابراہیم علیہ‌السلام صاحب رسالت تھے… پھر فرمایا: یہ رسالت میرے اور علی علیہ‌السلام تک پہنچی…ہم میں سے کسی نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا…اللہ نے مجھے نبی اور علی علیہ‌السلام کو وصی بنایا۔

[1] ۔سورہ المائدہ، آیت 55
[2] ۔سورہ الشوری، آیت 23
[3] ۔سورہ النجم، آیت 1
[4] ۔سورہ النجم، آیت 1-4
[5] ۔سورہ المائدہ، آیت 67
[6] ۔سورہ المائدہ، آیت 3
[7] ۔سورہ الحاقہ، آیت 12
[8] ۔سورہ الواقعہ، آیت 10-11
[9] ۔سورہ احقاق الحق و ازہاق الباطل
[10] ۔سورہ التوبہ، آیت 19
[11] ۔سورہ السجدہ، آیت 18
[12] ۔سورہ المجادلہ، آیت 12
[13] ۔سورہ مریم، آیت 96
[14] ۔سورہ البینہ، آیت 7
[15] ۔سورہ محمد، آیت 30
[16] ۔سورہ الاحزاب، آیت 33
[18] ۔سورہ الزمر، آیت 33
[19] ۔سورہ ہود، آیت 17

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے