مرقد مطہر امیرالمؤمنین علیہالسلام کی تاریخ نہایت قدیم ہے اور تاریخ کے دوران آپ کے چاہنے والوں نے ہمیشہ اس مقدس مقام کی تعمیر، مرمت اور تجدید کے ذریعے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس جنت نظیر مقام کی تاریخ بہت پرانی اور وسیع ہے جسے اس تحریر کے مختلف حصوں میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔ اس کا پہلا حصہ ضریح مبارک کے کمرے اور اس کی تاریخ پر مشتمل ہوگا۔
ضریح مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی ضریح کے کمرے میں کیا چیزیں ہیں، ضریح مبارک کی کھڑکیوں کی کیا خصوصیات ہیں اور صندوق خاتم سے کیا مراد ہے؟
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام یا ضریح مطہر تقریباً صحن کے وسط میں واقع ہے، ضریح مربع شکل کی ہے اور حرم کے کمرے کا رقبہ تقریباً 177 مربع میٹر ہے، جبکہ مرقد مطہر امیرالمؤمنین علیہالسلام کے ارد گرد کی دیواریں تقریباً 22 میٹر بلند ہیں۔
اس پر واقع گنبد چار ستونوں پر قائم ہے اور ان ستونوں کے درمیان چار بڑے اور بلند ایوان ہیں جو ضریح مطہر کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔

گنبد اندر سے خوبصورت کاشیوں سے ڈھکا ہوا ہے اور اس کی گردن کے گرد سورہ "والفجر” اور "عم یتسائلون” کے علاوہ ابن ابی الحدید معتزلی کے قصیدہ "عینیہ” کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔
حرم مقدس اپنے نقوش و نگار، منبت کاریوں اور خوبصورت رنگوں کے لحاظ سے ممتاز ہے اور یقیناً اسلامی فن تعمیر کے شاہکاروں میں سے ایک ہے۔
حرم مقدس امیرالمومنین علیہالسلام کی دیواریں نہایت خوبصورت آئینوں، زاویہ دار نقوش اور حسین ہندسی شکلوں سے آئینہ کاری کی گئی ہیں۔
حرم مقدس کے ایوانوں کو بھی میناکاری اور معرق کاری کی پٹیوں سے سجایا گیا ہے جن پر قرآن پاک کے بعض سورے تحریر ہیں نیز ایوانوں کے کناروں پر موصلی شاعر عبدالباقی عمری اور نجفی شاعر سید رضا ہندی کے اشعار درج ہیں۔
حرم مقدس کے فرش میں بھی قیمتی سنگ مرمر لگے ہوئے ہیں نیز دیواروں پر بھی دو میٹر کی بلندی تک سنگ مرمر لگے ہوئے ہیں۔

حرم مقدس امیرالمومنین علیہالسلام کی انتظامیہ کمیٹی کے زیر اہتمام حرم مقدس کے آثار اور نشانیوں کی مکمل بحالی کے پروگرام کے تحت، حرم مقدس کے کمروں میں موجود آئینہ کاری، میناکاری اور کاشی کاری کے آثار کی بحالی، تجدید اور دیکھ بھال کے اقدامات کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ، حرم مقدس کی انتظامیہ کمیٹی کے تحت فنی و انجینئرنگ امور کے نائب کی نگرانی میں حرم مقدس کے کمروں میں نئے فانوس نصب کیے گئے ہیں نیز حرم مقدس کی دیواروں اور فرش پر سبز سنگ مرمر کو لگائے گئے ہیں اور پرانی آئینہ کاریوں کو ہٹا کر دیواروں کی مرمت کے بعد ان پر پچھلی آئینہ کاریوں کے مماثل نقوش و نگار اور ہندسی شکلوں پر مشتمل نئی آئینہ کاری کی گئی ہے۔
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے اس وقت 8 قیمتی سونے کے دروازے ہیں جو چار داخلی راستوں سے حرم مقدس کے ہال میں کھلتے ہیں،یہ سونے کے دروازے پرانے چاندی کے دروازوں کی جگہ لگائے گئے ہیں اور ان کی اہم ترین خصوصیات میں ساخت میں محنت، طلا کاری کا فن، پھول پتیوں اور نباتاتی نقوش سے آراستگی شامل ہے، جن پر قرآن کریم کی آیات، احادیث مبارکہ اور قصائد کندہ ہیں۔

حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کا کمرہ
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے بارے میں حرم مقدس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اور حرم مقدس کے آثار قدیمہ کے ماہر عبدالہادی ابراہیمی اس مقدس کمرے کی عمومی خصوصیات بیان کرتے ہیں:
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام واقعی جنت کا ایک ٹکڑا ہے، یہاں اسلامی فن تعمیر کی تمام اصناف مختلف تاریخی ادوار میں یکجا ہو کر اس خوبصورت اور عظیم الشان عمارت کی صورت میں ڈھل گئی ہیں، خواہ وہ حسین انجینئرنگ اور مختلف نقوش ہوں یا متعدد تحریریں جو حرم مقدس کے ہر گوشے میں نظر آتی ہیں۔
حرم مقدس کے ہال کا رقبہ تقریباً 177 مربع میٹر ہے اور دیواروں کی بلندی 12.5 میٹر تک ہے، ضریح مطہر اور حرم مقدس کے درمیان ایک کھڑکی ہے، کھڑکیوں کے اوپر ایک اندرونی گنبد ہے، اس گنبد میں 12 کھڑکیاں 12 معصوم ائمہ علیہم السلام کے نام پر ہیں، گنبد کی اندرونی سطح نہایت خوبصورت کاشیوں سے ڈھکی ہوئی ہے جو نادر شاہ افشار کے زمانے کی ہیں اور ان کی معرق میناکاری خوبصورتی و قیمت کے اعتبار سے مقدس مقامات میں بے مثال ہے۔
حرم مقدس کی دیواروں اور گنبد پر قرآن مجید کے متعدد سورے اور قصائد لکھے ہوئے ہیں، سوروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ گنبد کے بالائی حلقہ (گردن) پر سورہ فجر اور کھڑکیوں کے نچلے حلقہ پر سورہ "عم یتسائلون” (سورہ النبأ) لکھی ہوئی ہے،یہ قرآنی سورے سن 1370 ہجری (1951 عیسوی) میں سید احمد مصطفوی نے دوبارہ لکھے، مرمت کئے اور نصب کرائے تھے۔

نیچے کے حلقہ پر پیلے رنگ کی تحریریں ہیں جو نہج البلاغہ کی مشہور شرح کے مصنف ابی الحدید المعتزلی کے لافانی قصیدہ عینیہ کے اشعار ہیں، یہ قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتا ہے:
یا بَرْقَ إِنْ جُنْتَ الْغَرِيَّ فَقُلْ لَهُ أَتَرَاكَ تَعْلَمُ مَنْ بِأَرْضِكَ مُوْدِعُ
اور یہاں تک یہ شعر آتا ہے
فِيكَ الْإمَامُ الْمُرْتَضَى فِيكَ الْ وَصِيُّ الْمُجْتَبَى فِيكَ الْبَطِينُ الْأَنْزَعُ
اس کے علاوہ چاروں داخلی دروازوں کے بالاترین مقام پر موصلی شاعر عبدالباقی العمری اور نجفی شاعر سید رضا ہندی کے اشعار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
نیز بڑے ایوانوں پر قرآنی سورے بھی تحریر ہیں جنہیں سن 1429 ہجری (2008 عیسوی) میں حرم مقدس کی انتظامیہ نے تجدید کیا، البتہ سورے وہی ہیں اور محفوظ ہیں، ان سوروں کی کتابت استاد موحد نے انجام دی ہے۔

رواقوں اور حرم مقدس کے اندر جو چیز قابل توجہ ہے، وہ آئینہ کاری اور مشبک کاری کا فن ہے، آئینہ کاری اور مشبک کاری قاجاری دور کی خصوصیات ہیں، حرم کی آئینہ کاری تیرہویں ہجری صدی کے آغاز میں کی گئی تھی، اس سلسلے میں میں شیخ جعفر محبوبہ کے بیان کی طرف رجوع کرتا ہوں جو ایک شعری تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو حرم کے جنوبی ستون پر کندہ ہے نیز مغربی ایوان پر تاریخ 1204 ہجری درج ہے۔ یہ تاریخ درحقیقت ایک شعر سے لی گئی ہے:
کُلُّ مَنْ یَسْأَلُ عَنْ تَارِیخِهَا هِیَ صَرْحٌ مِنْ قَوَارِیبَ مُمْرَدَه
جیسا کہ میں نے کہا، اس آئینہ کاری کی سن 1370 ہجری (1951 عیسوی) میں ایران کے سابق شاہ محمدرضا پہلوی نے تجدید و مرمت کرائی تھی، جب ان آئینہ کاریوں کی مرمت مکمل ہوئی تو پہلی تاریخ مٹ گئی۔
یہ آئینے اور شیشے کے ٹکڑے وقت گزرنے کے ساتھ ٹوٹ یا گر سکتے ہیں، اسی لیے حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی انتظامیہ مسلسل ان ٹکڑوں کی مرمت کا کام کرتی رہتی ہیں۔
حرم مقدس کا فرش اور زمین
دوسری جانب، اگر ہم حرم مقدس کے فرش اور زمین کے بارے میں بات کریں تو یہ کہنا ہوگا کہ پہلے حرم کے فرش پر قدیم نجفی پتھر بچھے ہوئے تھے، یعنی یہ پتھر دریائے نجف سے لائے گئے تھے لیکن فرش کی پہلی تبدیلی طاہر سیف الدین نے سن 1359 ہجری (1940 عیسوی) میں اطالوی سنگ مرمر سے کروائی۔

حرم مقدس کی تعمیر نو کے اقدامات میں سے ایک، جسے حرم مقدس کی انتظامیہ نے انجام دیا، قدیم سنگ مرمر کو انتہائی قیمتی سبز اونیکس پتھروں سے تبدیل کرنا تھا، جہاں نہ صرف فرش بلکہ دیواروں پر بھی دو میٹر کی بلندی تک یہی پتھر لگائے گئے۔
فانوسوں کے حوالے سے یہ کہنا ضروری ہے کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پہلے زمانے میں بادشاہوں، سلاطین اور امراء امیرالمومنین علیہالسلام کے حرم مقدس کو اپنی قیمتی ترین چیزوں کے تحائف پیش کیا کرتے تھے، ان تحائف میں سونے اور چاندی کے فانوس اور قندیلیں بھی شامل ہوتی تھیں۔
جب ہم حرم مقدس کی پرانی تصاویر دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ فانوس اور قندیلیں رواقوں اور حرم مقدس کے اندر لٹکی نظر آتی ہیں لیکن فی الحال یہ حرم مقدس کے گوداموں میں محفوظ ہیں۔

البتہ ضریح کے سب سے اونچے نقطہ پر اندرونی گنبد پر جو بڑا فانوس لٹکا ہوا ہے، وہ ایک نفیس اور بڑا کرسٹل کا بنا ہوا فانوس ہے جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے، یہ فانوس علامتی اہمیت کا حامل ہے،اس کی لمبائی 8 میٹر ہے اور اس کے تین حلقے ہیں، یہ ایران کے شہر مشہد مقدس میں بنایا گیا تھا اور سن 1428 ہجری (2007 عیسوی) میں نصب کیا گیا تھا۔
جاری۔۔۔
