سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے کوفہ کو دارالخلافہ کیوں بنایا؟

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے کوفہ کو دارالخلافہ کیوں بنایا؟

جب لوگوں نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی بیعت کی تو آپ نے کوفہ کو اپنی خلافت کا مرکز منتخب فرمایا،یہ فیصلہ کسی اتفاق یا اچانک نہیں کیا بلکہ حالات و ضروریات نے اس انتخاب کو لازمی قرار دیا۔

جب لوگوں نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی بیعت کی تو آپ نے کوفہ کو اپنی خلافت کا مرکز منتخب فرمایا،یہ فیصلہ کسی اتفاق یا اچانک نہیں کیا بلکہ حالات و ضروریات نے اس انتخاب کو لازمی قرار دیا۔

جو شخص امامت کے حقائق اور اس کے تقاضوں کو جانتا ہے، وہ یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا کوفہ کو دارالخلافہ قرار دینا محض ایک اتفاقی یا بدیہی اقدام تھا۔ بلکہ یہ فیصلہ اہم اور بنیادی وجوہات کے باعث تھا، جنہوں نے مدینہ اور دیگر شہروں پر کوفہ کو ترجیح دینے کو ضروری بنا دیا۔ خاص طور پر اس وقت جب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اہلِ کوفہ کے بارے میں اپنی رائے اور اعتماد کا اظہار فرمایا تھا اور صفین کی طرف روانگی کے وقت ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اے اہل کوفہ! تم میرے بھائی، میرے یار اور حق پر میرے سچے مددگار ہو، تمہارے ساتھ مل کر میں سازشیوں اور فتنے انگیزوں کو کچلوں گا اور تمہاری کامل اطاعت پر مجھے امید ہے۔[1]

کوفہ کو حکومت کا مرکز منتخب کرنے کی وجوہات

جیسا کہ ذکر ہوا، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے مختلف اور قوی دلائل کی بنا پر کوفہ کو اسلامی حکومت کا نیا مرکز قرار دیا، ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

۱۔ ذریت صالحہ اور وفادار دانشوروں کی موجودگی

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے زیادہ تر شیعہ اور وفادار اصحاب کوفہ میں موجود تھے، جنگِ جمل میں بڑی تعداد میں کوفیوں نے آپ کی حمایت کی، جب کہ مدینہ سے بمشکل ایک ہزار کے قریب جنگی افراد آپ کے ساتھ ہوئے، اس کے برعکس کوفہ کے بہت سے مجاہدین نے بصرہ کی فوج کے مقابلے میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا بھرپور ساتھ دیا۔

مدینہ اور حجاز کے باقی لوگ اور جزیرۂ عرب کے بیشتر مسلمان چونکہ سقیفہ کے نظام اور اس کے بانیوں کی تعظیم پر پروان چڑھے تھے، اس لیے ان کی وفاداری اہل‌بیت علیہم‌السلام کے مقابلے میں نہایت کمزور اور غیر پائیدار تھی، اس کے برعکس کوفے والے اور عراق کے دیگر خطوں کے لوگ زیادہ پختہ اور مضبوط حمایت فراہم کرتے تھے۔

۲۔ اسلامی دنیا کی جغرافیائی وسعت

اسلامی حکومت کا سیاسی و انتظامی مرکز ایسی جگہ ہونا چاہیے تھا جہاں سے شہروں کے درمیان آمد و رفت اور انتظامی رابطے آسان ہوں، اس وقت یہ خصوصیت سب سے زیادہ کوفہ میں پائی جاتی تھی، یہی اسٹریٹجک مقام کوفہ کو خلافت اور اسلامی حکومت کے دارالحکومت میں تبدیل کرنے کے لیے موزوں ترین بنا رہا تھا۔

۳۔ شام کے علاقوں سے نزدیکی

شام، جہاں معاویہ بن ابی‌سفیان براجمان تھا، اسلامی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ تھا، وہاں سے بغاوت یا دیگر اسلامی خطوں کے قیام کا امکان موجود تھا لہٰذا امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا کوفہ میں قیام ضروری تھا تاکہ شام کی طرف سے کسی ممکنہ یلغار یا فتنہ کا فوری اور مؤثر جواب دیا جا سکے۔

۴۔ کوفیوں کی وفاداری کو آزمانا

جنگ جمل کے فتنے کے بعد امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی سب سے بڑی ذمہ داری کوفیوں کی وفاداری کو آزمانا تھا، اس دور میں حالات فتنہ و آشوب سے بھرے ہوئے تھے، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے کوفہ کے خواص اور عوام کو دوستدار اور وفادار پایا اور ان میں ایک ایسا خمیر دیکھا جس سے ایک مضبوط اور صالح اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا تھا، اسی بنیاد پر آپ نے ان کی تربیت کرنے اور ساتھ لے کر دوسرے خطوں میں اسلام کے پیغام کو پھیلانے کا فیصلہ فرمایا۔

۵۔ اسلامی دنیا میں امن و استحکام کی بحالی

خلیفہ سوم کے قتل کے بعد اسلامی شہروں خصوصاً مکہ اور مدینہ میں امن و استحکام بری طرح متاثر ہو چکا تھا، اندرونی دشمنیوں، آپسی مخالفتوں اور افواہوں نے حالات کو مزید بگاڑ دیا تھا، اس ماحول نے حکومت کی بنیادوں کو ہلا دیا اور اسے زوال کے خطرے میں ڈال دیا، یہی وجہ تھی کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے کوفہ کو مرکز بنایا تاکہ اسلامی علاقوں، بالخصوص عراق، میں امن و استحکام قائم کریں اور امت کو مزید تقسیم اور انتشار سے محفوظ رکھیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے جن بڑے چیلنجز کا سامنا کیا، ان کے مقابلے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت تھی جو بصیرت رکھنے والے، باایمان اور حق و حقیقت کی راہ میں قربانی دینے کے لیے آمادہ ہوں، ایسے افراد آپ کو کوفہ میں دستیاب ہوئے۔

روایات میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی کوفیوں کی شناخت

متعدد روایات اور اقوال میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے کوفہ اور کوفہ والوں کی مدح و ستائش فرمائی ہے۔

۱۔ کوفہ کی فضیلت

حضرت علی علیہ‌السلام نے فرمایا:
کوفہ اسلام کا دماغ، ایمان کا خزانہ، اور خدا کی تلوار و نیزہ ہے جسے وہ جہاں چاہے استعمال کرتا ہے، خداوند اہل کوفہ کو مشرق و مغرب میں نصرت عطا فرامائے جیسے اس نے حجاز کو نصرت بخشی[2]۔

۲۔ خط کوفیان کے نام

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے جب مدینہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو اہل کوفہ کو ایک خط لکھا جس میں فرمایا:
اللہ کے بندے علی امیرالمؤمنین کی طرف سے اہل کوفہ، بلند مرتبہ دوستوں اور عرب کے سرداروں کے نام[3]

۳۔ بصرہ میں کوفی لشکر کا استقبال

جب کوفہ کے سپاہی خفیہ طور پر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی مدد کے لیے بصرہ پہنچے تو آپ نے ان کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا:
اے اہل کوفہ! تم نے عجم کے بادشاہوں اور ان کی شوکت کو نیست و نابود کیا، ان کے گروہوں کو پراگندہ کر دیا، اور ان کی میراث تمہیں ملی ، تم نے اپنے علاقے کو مضبوط کیا اور ہمارے لوگوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف مدد فراہم کی[4]۔

۴۔ معاویہ کے نام خط

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھا:
جتنا اہل شام دنیا کے دلدادہ ہیں، اس سے زیادہ اہل عراق (اہل کوفہ) آخرت کے دلدادہ ہیں[5]۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے