سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

ابن ملجم مرادی کے ہاتھوں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی شہادت

ابن ملجم مرادی کے ہاتھوں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام  کی شہادت

انیس رمضان المبارک کی شب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام محراب عبادت میں سب سے بے شقی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کی تلوار سے زخمی ہوئے اور اکیس رمضان المبارک کی شب شہید ہوئے۔

انیس رمضان المبارک کی شب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام محراب عبادت میں سب سے بے شقی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کی تلوار سے زخمی ہوئے اور اکیس رمضان المبارک کی شب شہید ہوئے۔

اس تحریر  میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شہادت کے حوالے سے تمام حالات بیان کیے جائیں گے جن میں سازش کی اصل وجوہات، اس اقدام کی منصوبہ بندی، اور آپؑ کی شہادت کے لمحے کی تفصیلات شامل ہیں۔

حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے زندگی بھر بے پناہ سختیوں کو برداشت کیا، ممکن ہے کہ کسی نے آپ کے شکوں کو محسوس نہ کیا ہو، اگرچہ بارہا آپ نے عوام سے شکایت کی اور منبر پر ان کی نافرمانی پر تنبیہ فرمائی، آپ کے شکوے محض جہاد کے میدانوں میں لوگوں کی بے توجہی تک محدود نہ تھی، بلکہ اصل میں حضرت امت اور معاشرے کی حالت کے بارے میں فکرمند، یہی سبب تھا کہ ہر لمحہ امت کی بھلائی اور اصلاح کی فکر میں رہتے تھے۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شہادت کا دردناک واقعہ

سب سے بڑی شقی عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے اپنے کچھ خارجی ساتھوں کے ساتھ مل کر مکہ مکرمہ میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو شہید کرنے کی سازش رچی، انہوں نے نذر مانی کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ، معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو بن عاص کو قتل کریں، طے پایا کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو ابن ملجم شقی شہید کرے گا۔

اس کے بعد ابن ملجم کوفہ آیا اور اپنے ساتھیوں سے ملاقات کی، مگر اپنے منصوبے کو ان سے چھپایا تاکہ مکہ میں اس کی اور اس کے ساتھیوں کی سازش پوشیدہ رہے۔

ایک دن ابن ملجم  بنی تیم الرباب سے تعلق  رکھنے والے اپنے ایک دوست سے ملنے گیا، وہاں اسے قطام بنت الاخضر ملی جس کے والد اور بھائی کو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے جنگ نہروان میں قتل کیا تھا، قطام کو دیکھتے ہی ابن ملجم اس پر عاشق و شیفتہ ہو گیا اور اس سے نکاح کرنے خواہش کا اظہار کیا، قطام نے پوچھا: میرا مہر کیا دو گے؟” ابن ملجم نے کہا: جتنا چاہو دوں گا۔ قطام نے کہا: تین ہزار درہم، ایک کنیز، ایک غلام اور علی بن ابی طالب کا قتل، اس نے یہ بھی کہا کہ میں کسی کو تلاش کروں گی جو تمہاری مدد کرے گا پھر اس نے کسی کو بنی تمیم الرباب قبیلے سے تعلق رکھنے والے وردان بن مجلد نامی شخص کے کسی کو بھیجا،اسے بتایا کہ ابن ملجم کیا کرنے والا ہے اور اس سے ابن ملجم کی مدد کرنے کو کہا، وہ بھی مان گیا۔

ابن ملجم نے اشجع قبیلے کے ایک شخص شبیب بن بحیرہ، سے ملاقات کی اور کہا: اے شبیب، کیا تم دنیا و آخرت کی عزت چاہتے ہو؟ شبیب نے پوچھا: کیسے؟ ابن ملجم نے کہا: علی بن ابی طالب کے قتل میں میری مدد کرو، ہم مسجد اعظم میں چھپ کر بیٹھیں گے جب علیؑ نماز صبح کے لیے آئیں گے، ہم ان پر حملہ کریں گے، اگر کامیاب ہو گئے تو ہمارے جتنے خون بہے ہیں ان کا انتقام ہو جائے گا، اب ملجم نے شبیب سے اتنا کہا کہ آخرکار اس نے منصوبے کو قبول کیا۔

سب قطام کے پاس گئے، وہ مسجد اعظم میں معتکف تھی،انہوں نے اس سے کہا، ہم اس شخص کو قتل کرنے کے لیے تیار ہیں، قطام نے کہا: اگر مجھ سے ملنا چاہو تو یہیں آنا
یہ لوگ اس کے پاس چلے گئے کچھ دن کوفے میں رہے اس کے بعد پھر قطام کے پاس آئے ،وردان بن مجلد بھی اس منصوبے میں شامل ہو گیا، یہ واقعہ شب جمعہ، انیس رمضان، سن چالیس ہجری کی رات پیش آیا۔

قطام نے ایک ریشمی کپڑا مانگا اور ان کے سینوں پر باندھا، وہ تلواریں لے کر اس دروازے کے سامنے بیٹھ گئے، جہاں سے حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نماز کے لیے نکلتے تھے۔

ابوالفرج اصفہانی نقل کرتے ہیں:اس رات ابن ملجم اشعث بن قیس کے پاس گیا اور مسجد کے کونے میں اس سے اکیلے میں کی، حجر بن عدی وہاں سے گزر رہے تھے کہ اشعث کی آواز سنی، جو ابن ملجم سے کہہ رہا تھا: جلدی کرو، اپنی منزل حاصل کرو، صبح کا وقت قریب ہے۔

اسی دوران حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے ضربت سے کچھ دیر پہلے مسجد میں سوئے ہوئے افراد کو جگایا ، آپ کی اذان کی آواز کوفہ بھر میں گونجتی تھی، جسے لوگ گزشتہ دنوں سے سنتے آ رہے تھے، اچانک ایک ندا آئی: قسم ہے خدا کی، کہ ارکان ہدایت ٹوٹ گئے اور علی مرتضی شہید ہو گئے۔

 اس طرح کوفہ کے لوگ اور بعد میں پوری اسلامی دنیا نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شہادت کی خبر سنی، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام خود بارہا اپنی شہادت کی اطلاع دے چکے تھے اور ممکن ہے کہ آپ کے قریبی سب افراد اس سے پہلے ہی آگاہ تھے۔

پیغمبر اکرم صلی‌الله‌علیه‌وآله کا امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شہادت پر گریہ

رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے زمانے میں، جنگ خندق میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، جو اس وقت بیس سال کے کچھ زیادہ عمر کے نوجوان تھے، عربوں کے بہادر عمرو بن عبدود کے سامنے کھڑے ہوئے، عمرو بن عبدود نے سوچا کہ وہ رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله اور مسلمانوں کا خاتمہ کر دے گا اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو قتل کرے گا۔

اس جنگ میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی پیشانی پر زخم آیا اور خون بہا، جب رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے آپ کو اس حالت میں دیکھا، ان کا دل غم سے جل اٹھا، انہوں نے اپنے ہاتھ سے رومال کے آپ کی پیشانی سے خون صاف کیا، زخم پر مرحم لگانے کا حکم دیا اور آنکھوں میں آنسو لیے فرمایا: میں کہاں ہوں گا اُس دن کے لیے جب یہ سر خون سے رنگین ہوگا؟ یوں آپ نے اس دن کی نشاندہی کی جب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے بال خون سے رنگین ہوں گے۔

چنانچہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اس دن کے منتظر تھے اور ان کے قریبی افراد بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، پہلے سے معلوم ہونے کے باوجود اس واقعے نے سب کو حیران کر دیا

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام معراج کی اس گھڑی میں کیا دیکھ رہے تھے؟

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی بیٹی ام کلثوم آپ کے سامنے بیٹھی تھیں اور آنسو بہا رہی تھیں، جب حضرت نے آنکھیں کھولیں تو بیٹی کو دیکھ کر فرمایا: نہ رو ، ام کلثوم! جو میں دیکھ رہا ہوں اگر تم بھی دیکھتیں تو نہ روتی، ساتوں آسمان کے فرشتے صف بنائے کھڑے ہیں اور انبیاء پکار رہے ہیں: آئیے یاعلیؑ! جو آپ کو ملنے والا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جس میں آپ ابھی ہیں۔

ضربت کے وقت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا مشہور قول

جب ابن ملجم کی تلوار امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے سر مبارک سر پر لگی اور آپ محراب عبادت میں تھے، روایت ہے کہ اس وقت آپ نے فرمایا: بسم اللہ و بالله و على دین رسول اللہ صلی‌الله‌علیه‌وآله، فزت و ربّ الکعبہ

(اللہ کے نام سے، رسول اللہ صلی‌الله‌علیه‌وآله  کے دین پر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا)۔

وہ رات تمام مسلمانوں کے لیے عزا اور مصیبت کی رات تھی، لیکن امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے لیے، جو اپنے عہد پر ثابت تھے، یہ رات فتح، خوشی اور رستگاری کی رات تھی۔

کچھ روایات کے مطابق انیس رمضان المبارک کی رات شب جمعہ تھی، جبکہ کچھ روایات کہتی ہیں کہ اکیس رمضان المبارک کی شب، شب جمعہ تھی۔

حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شہادت سے پہلے کے لمحے کیسے گذرے؟

اس رات، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، اپنی بیٹی ام کلثوم کے ساتھ روزہ افطار کیا، افطار میں تھوڑا سا نان اور نمک تھا اور ساتھ میں دودھ بھی تھا جو حضرت نے واپس کر دیا۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے رات بھر عبادت میں گذاری یہاں تک کہ صبح ہوئی، پھر مسجد میں گئے اور بلند آواز میں اذان دی، اس کے بعد محراب کی طرف گئے اور نماز کے درمیان منادی نے ندا دی : "قسم خدا کی ارکان ہدایت کو توڑ دیا گیا، یقینا لوگ اس کے معنی سمجھ گئے مگر منادی نے فوراً ایک اور جملہ بھی کہا جس سے مزید وضاحت ہو گئی: علی مرتضی علیہ‌السلام شہید ہو گئے۔

ضربت لگنے کے بعد بھی امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی لوگوں کی رہنمائی اور حدیث نقل

اصبغ روایت کرتے ہیں: میں اندر گیا، حضرت بستر بیماری پر لیٹے ہوئے تھے اور سر کے زخم کو زرد رنگ کے رومال سے باندھا ہوا تھا،میں رومال اور چہرۂ مبارک کے رنگ میں فرق نہیں کر سکتا تھا کہ کون سا زیادہ زرد ہے،حضرت کبھی ہوش میں آتے تو کبھی بے ہوش ہوجاتے ، ہوش میں آنے پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے منادی کے الفاظ کے معنی سے آگاہ کیا کہ قسم خدا کی ارکان ہدایت توڑ دیے گئے۔

حضرت اس حالت میں بھی لوگوں کی رہنمائی فرماتے رہے اور مفصل حدیث نقل فرمائی، اس کے بعد بے ہوش ہوگئے پھر نہ اصبغ اور نہ کوئی اور خاص صحابی نے آپ آپ سے ملا یہاں تک کہ رمضان المارک کی اکیسویں شب کو اپنے معبود سے جا ملے اور دنیا کو چھوڑ کر تاریخ کو سوگوار کر گئے۔

آدھی را کوں حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا پاکیزہ جنازہ اُٹھایا گیا اور دفن کیا گیا، آپ کی تدفین میں صرف آپ کے فرزندوں اور کچھ خاص صحابہ شریک ہوئے، جبکہ عام لوگوں نے جنازے میں شرکت نہیں کی۔

 

مأخذ:

۱- بحار الانوار، جلد ۴۲، ص ۲۳۹.

۲- بحار الانوار، ج۴۲، ص ۱۹۵.

۳- فی رحاب أئمّه أهل البيت (علیهم‌السلام): جلد ۲، ص ۲۵۵.

۴- بحار الانوار، علامه مجلسی، جلد ۴۲، ص ۲۳۹.

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے