"مینار ساعت” یا "گھنٹہ مینار” حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے دیدہ زیب حصوں میں سے ایک ہے، اس کے علاوہ اس مینار پر استعمال ہونے والی گھڑی دنیا کی قدیم ترین گھڑیوں میں شمار ہوتی ہے۔
” گھنٹہ مینار ” حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے اہم ترین حصوں میں سے ہے جس کے بارے میں اس تحریر میں تمام پہلوؤں سے تفصیل کے ساتھ بات کی جائے گی اور اہم سوالات جیسے کہ "موجودہ ساعت کب نصب ہوئی؟”، "کیا موجودہ گھڑی وہی پہلی گھڑی ہے؟”، "اس گھڑی کی اہم ترین خصوصیت کیا ہے؟” اور "اس کے ہندسوں کی شکل دوسرے میناروں سے کیوں مختلف ہے؟” کے جوابات دیے جائیں گے۔
گھنٹہ مینار
عراق ان ممالک میں سے ہے جو ٹاور والی گھڑیوں خاص طور پر میناروں کے لیے مخصوص گھڑیوں سے بہت جلد آشنا ہو گیا، بالخصوص مقدس مقامات اور مساجد میں،حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی گھڑی قدیم میکانیکی گھڑیوں میں سے ہے جو بڑی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خوبصورتی سے بنائی گئی ہے۔

گھنٹہ مینار حرم مقدس کے بڑے مشرقی دروازے پر واقع ہے جو صفوی دور میں حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی تعمیر کے اختتام پر، اس گھڑی کو نصب کرنے کے لیے چار سو سال سے زیادہ قبل تعمیر کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے حرم مقدس کا بڑا مشرقی دروازہ "باب الساعہ” کے نام سے مشہور ہوا۔
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی 1870 عیسوی میں لی گئی پرانی تصاویر کے جائزے سے اس مینار کی مربع شکل مقبرہ کی چھت سے تقریباً 4 میٹر بلند اور مینار کی نوک لوہے اور سٹیل کے نیم تعمیر ڈھانچے کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔
لیکن اس مینار کی گھڑی کا ایک ہی رخ ہے اور حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے سنہری ایوان کے سامنے واقع ہے، اس گھڑی کے اوپر ایک محافظ چھت نصب کی گئی ہے تاکہ اسے موسمی تبدیلیوں سے محفوظ رکھا جا سکے،دوسری گھڑی کے آنے پر، پہلے مینار کو منہدم کر دیا گیا اور اس کی جگہ موجودہ مینار تعمیر کیا گیا۔
موجودہ گھڑی کا نصب کرنا
حرم امیرالمؤمنین کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اور حرم مقدس کے تاریخی آثار کے ماہر "عبدالہادی ابراہیمی” موجودہ گھڑی کے نصب ہونے اور یہ کہ آیا یہ وہی پہلی گھڑی ہے یا کوئی دوسری گھڑی نصب کی گئی ہے، کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں:
یہ انتہائی خوبصورت گھڑی جو اس وقت مینار پر نصب ہے، "ناصر الدین شاہ قاجار” کے وزیر "علی اصغر ابن ابراہیم خان” نے سن 1305 ہجری / 1887 عیسوی میں حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کو تحفے میں دی تھی۔

درحقیقت یہ پہلی گھڑی نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے ایک اور گھڑی موجود تھی، مشہور ہے کہ عراق ان پہلے ممالک میں سے ہے جنہوں نے مکینیکل ٹاور گھڑیوں سے آشنائی حاصل کی، پہلی گھڑی کو ہدیہ کرنے والے کا نام معلوم نہیں ہے، لیکن یہ ایک برجی گھڑی تھی جو 4 میٹر بلند مینار پر نصب تھی، اس مینار اور گھڑی کی تصویر ناصر الدین شاہ قاجار کی البم میں موجود ہے، جب وہ سن 1287 ہجری میں نجف اشرف حاضر ہوئے اور ان کے مخصوص فوٹوگرافر نے حرم مقدس کی تصاویر لی تھیں، ان تصاویر میں قدیم مینار اور نیز پہلی گھڑی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
تیسرے مینار کو انگریز سیاح "لوفٹس” نے، جب وہ سن 1853 عیسوی میں نجف اشرف آیا، اور نیز فارسی سیاح "عبدالعلی ادیب ملک” نے سن 1856 عیسوی میں اس طرح بیان کیا اور نشاندہی کی کہ یہ ایک دقیق گھڑی ہے جس کی ٹِک ٹِک کی آواز نجف اشرف کے پرانے شہر کے تمام حصوں میں سنی جا سکتی ہے۔
لیکن جب موجودہ گھڑی سن 1305 ہجری میں آئی تو پرانا مینار اور پرانی گھڑی ہٹا دی گئی اور موجودہ مینار تعمیر کر کے نئی گھڑی نصب کی گئی۔ اس گھڑی کے نصب ہونے کی تاریخ کے بارے میں بہت سی نظمیں کہی گئی ہیں، جن میں "ناظم المجہول” کی نظم شامل ہے جس میں سن 1305 ہجری کی تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نیز علامہ "سید بحر العلوم” نے بھی ایک قصیدے میں اس گھڑی کی تاریخ بیان کی ہے جو سن 1305 ہجری کی تاریخ کی تصدیق کرتا ہے۔

موجودہ گھڑی کی خصوصیات
موجودہ گھڑی حرم مقدس امیرالمؤمنین کے اہم تاریخی آثار میں سے ہے، عبدالہادی ابراہیمی اس کی درج ذیل اہم خصوصیات بیان کرتے ہیں:
موجودہ گھڑی والا مینار مقدس مقامات میں موجود میناروں میں سب سے بڑا اور خوبصورت مینار سمجھا جاتا ہے، یہ مینار یا ٹاور مغربی برجوں سے مشابہ ہے، یہ مینار دو منزلوں پر مشتمل ہے اور گھڑی دوسری منزل پر نصب ہے، اس کے علاوہ برج کی دوسری منزل کے اوپر ایک سنہری گنبد یا قبہ موجود ہے۔
اس گنبد کے اوپر پہلے ایک شعاعی پھولوں کا تاج سجایا گیا تھا، اس تاج میں شعاعوں کی تعداد 12 تھی جو 12 معصوم اماموں علیہمالسلام کی علامت تھی، سن 1986 عیسوی میں بعثی حکومت کے دور میں جب حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے گنبد کے اوپر سے شعاعی تاج اتارا گیا تو مینار پر لگا ہوا شعاعی تاج بھی اس کے ساتھ ہٹا دیا گیا۔
یہ گھڑی انگلینڈ کے شہر "مینچسٹر” میں بطور خاص حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کی آواز لندن کی مشہور گھڑی "بگ بین” کی آواز سے ملتی جلتی ہے۔ یہ گھڑی موٹر، گھنٹی، گیئر، ہتھوڑا وغیرہ پر مشتمل ہے اور ہر 60 منٹ بعد وقت کی اطلاع دیتی ہے، اس گھڑی کی اسٹرنگ کا انداز اس طرح ہے کہ سُننے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ "یا علی .. یا علی .. یا علی” کہہ رہی ہے، محمد باقر ایروانی نے اس گھڑی کے اسٹرنگ انداز کے بارے میں ایک خوبصورت نظم کہی ہے اور اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

گھڑی کا ڈائل اور ساخت
گھڑی کے اصلی ڈائل پر انگریزی زبان میں ایک عبارت (W.H.PATENT) لکھی ہوئی ہے، یہ گھڑی ایک ہینڈونڈ گھڑی ہے اور اس کے لیے مخصوص افراد ہر دو دن بعد اس کو ہاتھ سے وقت پر سیٹ کرتے ہیں۔
گھڑی کی مرکزی موٹر کے علاوہ، جو کئی گیئروں پر مشتمل ہے، ایک پینڈولم اوپر سے لٹکا ہوا ہے جو گھڑی کے مسلسل چلتے رہنے کے لیے ضروری ہے۔
اس کے علاوہ گھڑی میں تین وزن ہیں جو اوپر نیچے حرکت کر کے گھنٹیوں اور مرکزی موٹر کی حرکت کو کنٹرول کرتے ہیں، اس کے علاوہ اس میں لیورز ہیں جو مرکزی موٹر سے باہر نکلتے ہیں،اوپر کے لیورز چار ہیں جو چاروں اطراف میں نصب ہیں۔
گھڑی کا ڈائل گول اور سفید رنگ کا ہے، چاروں ڈائل پر اعداد یونانی زبان میں ہیں، گھڑی کی تین گھنٹیاں مینار کے سنہری گنبد کے درمیان میں نصب ہیں، گھنٹیوں کے سائز ایک دوسرے سے مختلف ہیں: چھوٹی گھنٹی سیکنڈ، درمیانی گھنٹی منٹ، اور بڑی گھنٹی گھنٹے کے لیے استعمال ہوتی ہے، ہر گھنٹی کے ساتھ ایک ہتھوڑا لگا ہے اور ہر گھنٹی پر بنانے والے کا نام، مقامِ ساخت اور سالِ ساخت کندہ ہے۔

گھنٹہ مینار کی تعمیرنو اور جدید کاری
سن 1305 ہجری میں بنایا جانے والے موجودہ گھنٹہ مینار کو وقت گزرنے کے ساتھ فطری طور پر تعمیرنو، جدید کاری کی ضرورت پیش آئی، اس کے علاوہ اسے مزید خوبصورت بنایا گیا، خوبصورت بنانے کے حوالے سے کیے گئے کاموں میں مینار کے اوپر بنے گنبد کی طلاکاری شامل ہے،سن 1323 ہجری (1905 عیسوی) میں ایک تبریزی شخص نے اس مینار کے آٹھ کھڑکیوں والے گنبد کی طلاکاری کی، اس کے بعد سن 1391 ہجری (1971 عیسوی) میں مرجع عالی قدر سید محمود شاهرودی نے مینار گھڑی کے گنبد کی دوبارہ طلاکاری کروائی۔
بعثی حکومت کی حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے تئیں غفلت، جس میں مینار کا برج بھی شامل تھا، کے باعث مینار کا لکڑی کا ڈھانچہ دیمک کا شکار ہو گیا تھا اور گھڑی بند ہو چکی تھی، سن 2003 عیسوی میں بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد حرم مقدس نے مینار کی تعمیر نو کا اہم کام شروع کیا۔

سن 2008 عیسوی میں حرم مقدس نے اس برج کی سابقہ معماری کی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک نئے اور خوبصورت ظاہری شکل کے ساتھ تعمیرنو کی گئی، محمد علی شهرستانی اس منصوبے کے نگران تھے اور اس کا نفاذ حرم مقدس کے تکنیکی اور انجینئرنگ عملے نے کیا۔ اس تعمیرنو میں دیواروں کو ڈھانپنے کے لیے میناکاری والی ٹائلز اور امیر المومنین علیہالسلام کی مدح و ستایش میں موجود نبوی احادیث کا استعمال کیا گیا نیز گھڑی کی مرمت کی گئی اور اس کی اسٹریکنگ دوبارہ ترتیب دی گئی، یہ کام سن 2009 عیسوی میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
گھڑی مینار کی انجینئرنگ اور معماری کی خصوصیات
گھڑی مینار کی اونچائی تقریباً 27 میٹر ہے،یہ مینار چودہویں ہجری صدی میں تعمیر کیا گیا تھا، اس کی معماری مربع شکل کی ہے جس کے اوپر ایک چھوٹا سنہری گنبد ہے جو آٹھ ستونوں پر کھڑا ہے اور ہر دو ستونوں کے درمیان ایک گول ایوان ہے۔
گھڑی مینار کی بنیاد صحن حرم مقدس کی دیوار پر ایک مکعب شکل پر رکھی گئی ہے اور یہ دو منزلوں پر مشتمل ہے، گھڑی، مینار کی دوسری منزل پر نصب ہے اور آج کل حرم مقدس کے خوبصورت تاریخی آثار میں سے ایک ہے۔

تاریخی پس منظر
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کے مشرقی دروازے پر پہلی گھڑی نصب کرنے کے لیے تیرہویں ہجری صدی کے آخری تین عشروں میں ایک چھوٹا مینار بنایا گیا تھا جو موجودہ گھڑی سے پہلے استعمال ہوتا تھا، یہ واضح نہیں ہے کہ اس گھڑی کے ہدیہ کرنے والے کون تھے۔
شیخ علی شرقی اپنی کتاب "احلام” میں موجودہ گھڑی کے بارے میں لکھتے ہیں: "یہ وہ پہلی گھڑی نہیں ہے جو وہاں نصب کی گئی تھی، بلکہ اس سے پہلے بھی ایک گھڑی موجود تھی، لیکن اس (نئی گھڑی) کو ترجیح دی گئی، لہٰذا یہ گھڑی نصب کی گئی اور پرانی گھڑی ہٹا دی گئی۔”
حرم مقدس امیرالمؤمنین علیہالسلام کی موجودہ گھڑی دنیا کی مشہور اور بے مثال گھڑیوں میں سے ایک ہے، حرم مقدس کی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہ گھڑی بے نظیر ہے جو "ناصر الدین شاہ قاجار” کے وزیر "علی اصغر ابن ابراہیم خان” المعروف امین السطان نے ہدیہ کی ہے۔

تعمیر نو کے مراحل
بعثی حکومت کی لاپروائی اور سن 1991 عیسوی میں شعبانیہ انتفاضہ کے دوران گھڑی منیار کو پہنچنے والے نقصان کے بعد حرم مقدس کے انجینئرنگ اور تکنیکی عملے نے مینار کی مکمل تعمیر نو کی،یہ کام اس کی سابقہ اور اصلی معماری کو برقرار رکھتے ہوئے کیا گیا تاکہ اس کی تاریخی ساخت محفوظ رہے، لیکن ایک نئی شکل و صورت دی گئی۔ اس میں مینار کے اوپر والے گنبد کا غلاف تبدیل کیا گیا اور اس کے اوپرمیناکاری والے ٹائلز اور امیر المومنین علیہالسلام کے بارے میں نبوی احادیث لگائی گئیں نیز گھڑی کے بعض حصوں کو مکمل طور پر تبدیل کیا گیا تاکہ یہ پہلے کی طرح کام کر سکے اور اس کی آواز سنی جا سکے۔
