سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی بےنظیر شجاعت

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی بےنظیر شجاعت

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ‌السلام کی شجاعت اور دلیری کے بارے میں بےشمار روایات نقل ہوئی ہیں، خود آپؑ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ کے اندر جو شجاعت اور دلیری دکھائی دیتی ہے، یہ دراصل انوارِ الٰہی کی ایک جھلک ہے۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ‌السلام کی شجاعت اور دلیری کے بارے میں بےشمار روایات نقل ہوئی ہیں، خود آپؑ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ کے اندر جو شجاعت اور دلیری دکھائی دیتی ہے، یہ دراصل انوارِ الٰہی کی ایک جھلک ہے۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شجاعت پر دلالت کرنے والی روایات اگرچہ سب روایات لفظ بہ لفظ متواتر نہیں ہیں، لیکن سب کا ایک مشترکہ پیغام ہے اور سب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شناخت میں مددگار ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ نہ رسول اکرم صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کی حیاتِ طیبہ میں اور نہ ہی آپؐ کی شہادت کے بعد کوئی دو افراد بھی ایسے نہ تھے جو شجاعت میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا مقابلہ کرسکیں۔ آپؑ کے کارنامے، جنگی میدانوں میں بےمثال فتوحات اور مضبوط و استوار موقف اس حقیقت کو مزید روشن کرتے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ آپؑ شجاع نہ ہوں جبکہ فنونِ جنگ و رزم کے بہترین معلم خود رسول اکرم صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے آپؑ کو تربیت دی تھی[1]۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی شجاعت دوپہر کے سورج کی طرح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس شجاعت کا سب سے نمایاں ثبوت وہ لمحہ ہے جب ہجرتِ رسول صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کی رات آپؑ نے بسترِ پیغمبرؐ پر سونے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت آپؑ نے ابو جہل جیسے دشمن کو مخاطب کرتے ہوئے ایسی جرات مندانہ باتیں کہیں جو تاریخ میں شجاعت کی لازوال مثال بن گئیں[2]۔

رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:یاعلی! آپ میرے لیے اسی طرح ہیں جیسے جسم کے لیے کان اور آنکھیں اور سر کی حیثیت ہے، اور جیسے جان کے لیے روح کی اہمیت ہے، اور جیسے سخت پیاسے کے لیے ٹھنڈا پانی ہوتا ہے۔

پھر ارشاد فرمایا:اے ابوالحسن! جب آپ میرے بستر پر لیٹئے گا تو میری عبا اپنے اوپر اوڑھ لیجئے گا۔ پس اگر کافر آئیں پاس آئیں اور آپ سے سامنا کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے گا تاکہ آپ انہیں جواب دے سکیں۔

جب لوگ اپنی تلواریں تیز کر رہے تھے کہ ابوجہل ان کے پاس آیا اور کہنے لگا:محمد صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کو موقع نہ دو جب وہ سو رہے ہوں اور کچھ خبر نہ ہو تو ان پر پتھر پھینکو اور پھر ان کا خاتمہ کر دو۔

چنانچہ اس رات انہوں نے بڑے بڑے پتھروں سے وار کیا، اسی لمحے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اپنا رخِ انور ظاہر فرمایا اور فرمایا:
کون ہو تم لوگ؟

وہ سب حیران رہ گئے اور پہچان گئے کہ یہ تو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ہیں۔

ابوجہل نے ان سے کہا:کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ محمد صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کس طرح اس موقع سے بچ نکلے اور اپنی حفاظت کرلی تاکہ ہم علی کے ساتھ مشغول ہو جائیں؟ خبردار! گمراہ علی میں نہ الجھنا، ورنہ محمد بچ نکلیں گے، ورنہ جیسا کہ وہ دعوی کرتے ہیں کس نے انہیں آج رات اپنے بستر پر سونے سے روکا؟

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے فرمایا:اے ابوجہل! یہ تم مجھ سے کہہ رہے ہو؟ خدا نے مجھے اتنی عقل عطا کی ہے کہ اگر دنیا کے تمام دیوانوں میں بانٹی کی جائے تو سب عقل مند ہو جائیں۔ مجھے ایسی طاقت دی ہے کہ اگر تمام کمزوروں میں بانٹ دی جائے تو سب طاقتور ہو جائیں، ایسی شجاعت دی ہے کہ اگر تمام بزدلوں میں تقسیم ہو تو سب بہادر ہو جائیں، اور ایسی بردباری دی ہے کہ اگر دنیا کے تمام کوتاہ فکروں میں تقسیم کی جائے تو سب صابر و حلیم بن جائیں۔
اگر رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ مجھے حکم نہ دیتے کہ جب تک میں ان کے ساتھ ملاقات نہ کرلوں کچھ نہیں ہونا چاہیے تو میں تمہیں تمہاری حقیقت دکھا دیتا اور تم سب کو قتل کر دیتا۔

پھر فرمایا:وائے ہو تم پر اے ابوجہل! جب رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نکلے تو آسمان و زمین، دریا و پہاڑ سب نے اجازت چاہی کہ تمہیں ہلاک کر دیں، مگر رسول خدا نے رحمت و شفقت سے منع فرمایا تاکہ آئندہ کافر مردوں اور عورتوں کے صلب اور رحم سے مؤمنین پیدا ہوں ورنہ تمہیں ابھی ہلاک کر دیا جاتا،خدا بے نیاز ہے اور تم فقیر ہو، وہ تمہیں  اپنی اطاعت کی دعوت نہیں دیتا جبکہ تم مجبور اور بے اختیار ہو، بلکہ اس نے تمہیں اس چیز پر قدرت و توانائی عطا کی ہے جس کا تمہیں حکم دیا ہے اور اس طرح تمہارا عذر ختم کر دیا

ابوجہل کا بھائی ابوالبختری بن ہشام غصے میں تلوار لے کر علی علیہ‌السلام کی طرف بڑھا،اچانک اس نے دیکھا کہ پہاڑ اس پر ٹوٹ رہے ہیں، زمین شق ہو رہی ہے تاکہ اسے نگل لے، سمندروں کی موجیں اٹھ رہی ہیں کہ اسے غرق کر دیں اور آسمان نیچے آرہا ہے کہ اس پر گر پڑے۔ اس کے ہاتھ کانپ لگے، تلوار گر گئی اور وہ بیہوش ہو گیا۔

ابوجہل نے کہا:میں نے دیکھا کہ اس کے گرد آندھی چل رہی، اسے چکرا رہی ہے اور اس کے ساتھیوں کو بھی اڑا کر لے جانے والی ہے!

ایک اور روایت میں شقیق بن سلمہ کہتے ہیں:میں عمر بن خطاب کے ساتھ چل رہا تھا کہ ان کے لبوں پر ایک زمزمہ سنا،میں نے پوچھا: اے عمر! کیا ہوا؟ عمر نے کہا: افسوس تجھ پر! کیا تم اس دھاڑتے ہوئے شیر کو نہیں دیکھے رہے، جو جنگ کا فرزند ہے؟ جو بےپناہ شجاعت کے ساتھ سرکشوں اور مفسدوں پر دو تلواوں اور دو پرچموں کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے؟

شقیق کہتے ہیں: میں نے نظر اٹھائی تو وہ علی بن ابی‌طالب علیہ‌السلام تھے، میں نے عمر سے کہا: یہ علی ابن ابی‌طالب علیہ‌السلام ہیں،عمر نے کہا: میرے قریب آؤ تاکہ میں تمہیں ان کی شجاعت اور دلیری کے بارے میں بتاؤں، ہم نے جنگ احد میں رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ سے بیعت کی تھی کہ پیٹھ نہیں پھیریں گے، جو بھاگے گا وہ گمراہ ہے اور جو مارا جائے گا وہ شہید ہے اور رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ اس کے پیشوا ہیں،اچانک سو سو کے لشکر ہم پر ٹوٹ پڑے، ہر لشکر سو یا اس سے زیادہ کا تھا اور موت کے بگولے ہمیں ڈرا رہے تھے، ایسے میں میں نے علی علیہ‌السلام کو دیکھا کہ وہ گردوغبار میں شیر کی مانند لڑ رہے ہیں، پھر انہوں نے ایک مشت کنکریاں اٹھائیں اور ہماری طرف پھینکیں۔

عمر کہتا ہے: دوسری بار وہ ہمارے سامنے آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک چوڑی تلوار تھی جس سے موت ٹپک رہی تھی،علی نے کہا: تم نے بیعت کی تھی، مگر عہد توڑ دیا۔ خدا کی قسم! تم ان لوگوں سے زیادہ قتل کے لائق ہو جنہیں میں قتل کر رہا ہوں، میں نے ان کی آنکھوں کی طرف دیکھا، وہ دو روشن چراغوں کی طرح تھیں، گویا خون سے لبریز دو پیالے چمک رہے ہوں۔

عمر نے اقرار کیا: میں آج تک اس خوف اور ہیبت سے آزاد نہیں ہو سکا۔ وہ منظر اب تک میرے دل سے محو نہیں ہوا۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اپنی طاقت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے سہل بن حنیف کے نام ایک خط میں فرمایا:

خدا کی قسم! میں نے درِ خیبر کو اکھاڑا کہ اسے چالیس گز دور اپنی جسمانی قوت اور کھانے پینے سے حاصل ہونے والی طاقت سے نہیں پھینکا بلکہ یہ قوتِ ملکوتی اور روحانی نور کی طاقت تھی جو پروردگار کے نور سے مجھے عطا ہوئی ہے۔
میں احمدِ مرسل صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے سامنے نور کی صرف ایک کرن ہوں۔ خدا کی قسم! اگر تمام عرب میرے مقابلے پر جمع ہو جائیں، میں ان کے سامنے سے ہرگز نہ بھاگوں گا[3]۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے