امیرالمؤمنین حضرت علی علیہالسلام کی معرفت کا ایک بہترین ذریعہ قرآن مجید ہے۔ اس حصے میں ہم ” علوی آیات ” کے عنوان سے آیات قرآنی کی روشنی میں امیرالمؤمنین کی شان و منزلت کو جاننے کی کوشش کریں گے۔
زیر بحث آیت سورہ حجر کی آیت نمبر 41 ہے۔
اس آیت میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
قَالَ هَٰذَا صِرَٰطٌ عَلَىَّ مُسْتَقِيمٌ۔
یہ میرا سیدھا راستہ ہے جس کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔
ابو برزہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ صلیاللہعلیہوآلہ نے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورہ انعام کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
"اور (اے پیغمبر! کہہ دو) یہ میرا سیدھا راستہ ہے، پس تم اس کی پیروی کرو، اور دوسرے (ٹیڑھے) راستوں کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اس (اللہ) کے راستے سے بہکا کر جدا کر دیں گے۔ یہی (حکم) ہے جس کا اس (اللہ) نے تمہیں تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔”(سورہ انعام، آیت: 153)
اس پر ایک شخص نے عرض کیا: "یا رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ کیا اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ نے اس راستے (یعنی دین اسلام) کو تمام دوسرے راستوں پر فضیلت دی ہے؟”
رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ نے فرمایا: "یہ تو وہ ظلم ہے جو تم (علی علیہالسلام کے حق میں) کر رہے ہو (کہ ان کے مقام کو پہچان نہیں رہے)۔ البتہ جو بات تم نے کہی کہ اللہ نے اسلام کو دیگر ادیان پر فضیلت دی ہے، وہ درست ہے، لیکن یہ آیت ‘هَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا’ (یہ میرا سیدھا راستہ ہے) اس وقت نازل ہوئی جب میں پہلی جنگ تبوک سے واپس لوٹ رہا تھا۔”
پھر رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ نے دعا فرمائی:
"اے میرے پروردگار! میں نے علی علیہالسلام کو اپنی امت میں اسی طرح جانشین مقرر کیا ہے جیسے ہارون علیہالسلام موسیٰ علیہالسلام کے جانشین تھے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اے اللہ! میرے قول کی تصدیق فرما، میرے وعدے کو پورا فرما، اور قرآن میں علی علیہالسلام کا ذکر فرما، جیسے تو نے ہارون علیہالسلام کا ذکر کیا ہے۔”
رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ نے (دعا کے جواب میں نازل ہونے والی) قرآن کی ایک آیت پڑھی اور فرمایا: "اللہ نے میری بات کی اس آیت ‘قَالَ هَٰذَا صِرَٰطٌ عَلَىَّ مُسْتَقِیمٌ‘ کے ذریعہ میری تصدیق فرمائی ہے۔ یہی (علی علیہالسلام ) وہ ہیں جو میرے پاس بیٹھے ہیں۔ ان کی نصیحت سنو اور ان کی بات مانو۔ جس نے مجھے گالی دی، اس نے اللہ کو گالی دی، اور جس نے علی علیہالسلام کو گالی دی، اس نے مجھے گالی دی۔” [1]
غزوہ تبوک اور حضرت علی علیہالسلام کی امامت اعلان
اس حدیث میں رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ نے حضرت علی علیہالسلام کے مقام و منصب کو واضح الفاظ میں بیان فرما دیا۔ حضرت ہارون علیہالسلام، حضرت موسیٰ علیہالسلام کے بھائی، وزیر، مددگار اور ان کے جانشین تھے۔ اسی طرح رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ نے فرمایا کہ حضرت علی علیہالسلام بھی ان کے بھائی، وزیر، مددگار اور ان کے جانشین ہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہالسلام کی غیر حاضری میں حضرت ہارون علیہالسلام ان کے نائب اور جانشین تھے، اور چونکہ رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ آخری نبی ہیں، اس لئے آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا، لیکن رہنمائی اور امامت کا سلسلہ حضرت علی علیہالسلام کی ذات میں جاری رہا۔
رسول خاتم صلیاللہعلیہوآلہ :
رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ نے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "یہ میرا سیدھا راستہ ہے، پس تم اس کی پیروی کرو! اور پراکندہ اور انحرافی راستوں سے بچو جو تمہیں حق کے راستے سے دور کر دیں گے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، شاید کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔”
امام جعفر صادق علیہالسلام :
ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہالسلام نے آیۂ ﴿قَالَ هَٰذَا صِرَٰطٌ عَلَىَّ مُسْتَقِيمٌ﴾ کی تلاوت فرمائی، پھر ارشاد فرمایا:”اس (صراط) سے مراد علی بن ابی طالب علیہالسلام ہیں، یعنی ان کے طریقے میں کوئی کجی یا انحراف نہیں ہے۔” [2]
امام محمد باقر علیہالسلام :
سلام بن مستنیر جعفی کہتے ہیں: میں نے امام محمد باقر علیہالسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ” آیہ ﴿قَالَ هَٰذَا صِرَٰطٌ عَلَىَّ مُسْتَقِيمٌ﴾ سے کیا مراد ہے؟ ” امام علیہالسلام نے فرمایا: "(یہ) علی بن ابی طالب علیہالسلام کا راستہ (صراط) ہے۔ [3]
