سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

پچیس سال کی عمر میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام غزوۂ بدر میں پرچم دارِ سپاہِ اسلام

پچیس سال کی عمر میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام غزوۂ بدر میں پرچم دارِ سپاہِ اسلام

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے تمام غزوات اور جنگوں میں شرکت فرمائی، خصوصاً وہ غزوات جن میں خود رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ شریک ہوئے،ان سب میں آپ سپاہِ اسلام کے پرچم دار رہے،جنگِ بدر میں بھی آپ نے نمایاں کردار ادا کیا اور تن بہ تن مقابلوں میں قریش کے بڑے بڑے سرداروں کو ہلاک کیا۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے تمام غزوات اور جنگوں میں شرکت فرمائی، خصوصاً وہ غزوات جن میں خود رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ شریک ہوئے،ان سب میں آپ سپاہِ اسلام کے پرچم دار رہے،جنگِ بدر میں بھی آپ نے نمایاں کردار ادا کیا اور تن بہ تن مقابلوں میں قریش کے بڑے بڑے سرداروں کو ہلاک کیا۔

آگے چل کر آپ تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں گے کہ غزوۂ بدر میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کس طرح کلیدی کردار ادا کیا۔

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ وآلہ کی حیاتِ مبارکہ کے دوران بہت سی جنگیں اور غزوات پیش آئیں جن کی تعداد تاریخ کے مطابق 80 تک پہنچتی ہے۔ تاہم ان سب میں لڑائی نہیں ہوئی کیونکہ ان میں سے بہت سی مہمات محض سریہ تھیں جو معلومات حاصل کرنے اور دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے انجام دی گئیں،ان مواقع پر رسول اکرم صلی‌اللہ‌علیہ وآلہ اپنے سپاہیوں کو مدینہ کے اطراف یا اُن مقامات پر روانہ کرتے تھے جہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ ہوتا تھا۔

جن جنگوں اور غزوات میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ وآلہ کے ہمراہ تھے

رسول اکرم صلی‌اللہ‌علیہ وآلہ نے بذاتِ خود 27 غزوات میں شرکت فرمائی، جن میں سے 9 میں جنگ ہوئی، یہی وہ مشہور جنگیں ہیں جو تاریخ اسلام میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام ان تمام غزوات میں رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے ساتھ رہے اور کبھی بھی کسی غزوہ میں آپ کو تنہا نہ چھوڑا، سوائے غزوۂ تبوک کے جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کے حکم سے تشریف نہیں لے گئے۔ ان تمام غزوات میں لشکرِ اسلام کا پرچم ہمیشہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے دستِ مبارک میں رہا[1]۔

غزوۂ بدر اسلامی تاریخ کی پہلی جنگ تھی جس میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے شجاعت اور بہادری کا ایسا مظاہرہ فرمایا کہ رہتی دنیا تک مثال بن گیا، اُس وقت آپ کی عمر پچیس برس سے زیادہ نہ تھی، اسی جنگ میں رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے سپاہ اسلام کا پرچم امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے سپرد کیا۔

جنگ بدر کی تفصیلات اور وہ مشرکین جو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے ہاتھوں ہلاک ہوئے

جب جنگ کا آغاز ہوا تو قریش کے سردار عتبہ اور اُس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں آئے اور اپنا مد مقابل طلب کیا، اس موقع پر انصار کے تین جوان، معاذ، معوّذ اور عوف (بنی عفراء سے) آگے بڑھے اور مقابلے کے لیے تیار ہوئے[2]۔

لیکن عتبہ نے انصار کے ان جوانوں سے جنگ کرنے سے انکار کر دیا اور رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ اپنے ہم قبیلہ اور شایستہ افراد کو بھیجیں، اس پر رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے اپنے عزیز ترین ہاشمی جوانوں کو پکارا اور فرمایا:عبیدہ بن حارث، حمزہ بن عبدالمطلب اور علی بن ابی‌طالب! اٹھو۔

یہ تینوں جانباز تیزی سے کھڑے ہو گئے اور ایمان سے لبریز دلوں کے ساتھ دشمن کے مقابل ڈٹ گئے، عتبہ نے کہا:اپنا تعارف کراؤ تاکہ ہم تمہیں پہچان سکیں اور مقصد جان لیں۔

سب سے پہلے حضرت حمزہ رضوان اللہ علیہ نے کلام کیا اور فرمایا:میں حمزہ بن عبدالمطلب ہوں، شیرِ خدا اور اُس کے رسول کا مجاہد!

عتبہ نے جواب دیا: تو واقعی ایک شایستہ اور کریم شخص ہے، اور میں بھی اپنے ہم‌پیمان کا شیر ہوں۔ یہ دو کون ہیں جو تیرے ساتھ ہیں؟

حضرت حمزہ نے فرمایا: یہ علی بن ابی‌طالب اور عبیدہ بن حارث ہیں۔

عتبہ نے کہا: یہ دونوں بھی صاحبِ کرم اور بہادر ہیں۔۔[3]۔

پس عبیدہ بن حارث، جو ستر (70) برس کے تھے، عتبہ بن ربیعہ کی طرف بڑھے، بعض روایات میں ہے کہ وہ شیبہ کی طرف گئے[4]، انہوں نے عتبہ کے سر پر ضرب لگائی، لیکن عتبہ نے بھی وار کیا اور عبیدہ کی ٹانگ کاٹ دی۔ دونوں زمین پر گر پڑے۔

اسی دوران امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، جو قریش کے نوجوان ترین افراد میں سے تھے، ولید کے مقابل ہوئے اور تلوار کا ایسا وار کیا کہ تلوار کا پھل اُس کے شانے کو چیرتا ہوا بغل کے نیچے سے باہر نکل آیا، ادھر حضرت حمزہ نے شیبہ پر حملہ کیا اور دونوں میں تلوار سے زبردست مقابلہ ہوا یہاں تک کہ دونوں کی تلواریں ٹوٹ گئیں، پھر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہو گئے۔

حضرت حمزہ قدآور تھے، مسلمانوں نے یہ منظر دیکھ کر پکارا: کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ یہ کُتّا آپ کے چچا کا دم گھونٹ رہا ہے؟

یہ سن کر حضرت علی علیہ‌السلام لپکے اور اپنے چچا سے کہا:عمو! سر جھکائیے۔

حضرت حمزہ نے اپنا سر شیبہ کی چھاتی میں دبا دیا اور حضرت علی علیہ‌السلام نے تلوار کے وار سے شیبہ کا سر تن سے جدا کر دیا پھر عتبہ کی طرف بڑھے جو ابھی زندہ تھا، اُسے بھی واصلِ جہنم کر دیا۔

مسلمانوں نے زخمی عبیدہ کو اٹھایا اور رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کی خدمت میں لے آئے۔ عبیدہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ! کیا میں شہید نہیں ہوں؟
آنحضرت صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے فرمایا: کیوں نہیں۔[5]۔

عبیدہ جنگ کے بعد کچھ وقت زندہ رہے، پھر جامِ شہادت نوش کیا اور جنگ بدر کے پہلے شہید اسلام قرار پائے۔

اس کے بعد حنظلہ بن ابوسفیان حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام پر حملہ آور ہوا، لیکن جونہی قریب پہنچا، آپؑ نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ اُس کی آنکھیں باہر آ گئیں اور وہ ذبح شدہ قربانی کی طرح بدر کی ریت پر جا گرا۔

اس کے بعد عاص بن سعید بن عاص میدان میں آیا اور مقابلے کا مطالبہ کیا، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام آگے بڑھے اور اُسے  بھی قتل کر دیا۔

جب بنی مخزوم نے مشرکین کی لاشوں کے ڈھیر دیکھے تو خوف کے مارے ابوجہل کو گھیر کر اُس کی حفاظت کرنے لگے، اسی دوران عبداللہ بن منذر زرہ بکتر پہن کر میدان میں آیا لیکن امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے ایک ہی وار میں اُسے ہلاک کر دیا، اس کے بعد فاکہ بن مغیرہ آگے بڑھا، حضرت حمزہ نے اُسے واصلِ جہنم کیا، وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ابوجہل ہے۔

ان دونوں کے بعد حرملہ بن عمرو نے جنگی لباس پہنا، مگر وہ بھی حضرت علی علیہ‌السلام کے ہاتھوں مارا گیا، مشرکین نے جب یہ منظر دیکھا کہ حضرت علی اور حضرت حمزہ کس طرح ایک کے بعد ایک ان کے نامی گرامی جنگجوؤں کو ختم کر رہے ہیں، تو اُن کے اکثر افراد نے زرہ پہننے اور میدان میں آنے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد دونوں لشکر آمنے سامنے آئے اور سخت جنگ شروع ہو گئی۔ تلواریں چلنے لگیں، سر زمین پر گرنے لگے اور لاشیں بکھرتی گئیں۔ اسی جنگ میں نوفل بن خویلد بھی تھا جو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے ہاتھوں قتل ہوا، رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے اُس کے بارے میں پہلے ہی دعا کی تھی:خدایا! مجھے ابن العدویہ کے شر سے محفوظ رکھ۔

غزوۂ بدر میں مشرکین کی ہلاکتوں کی تعداد

رسول اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ مسلمانوں کے ساتھ تھے اور قریش کے مشرکین کا غرور ان کے قدموں تلے روند ڈالا گیا، آپ صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے ایک مُٹھی خاک اُٹھائی اور کفار کی طرف پھینک کر فرمایا:چہرے رسوا ہوں، اے خدا! ان کے دلوں میں رعب ڈال دے۔

یہ دعا کرنا اور خاک کا پھینکنا تھا کہ مشرکین کی صفیں ٹوٹ گئیں، شکست کھا گئے، اپنے مال و اسباب اور اسلحہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، جنگ کا اختتام اس طرح ہوا کہ قریش کے 70 افراد قتل ہوئے جو سبھی بڑے سرداروں اور جنگجوؤں میں سے تھے اور 70 افراد قید کر لیے گئے جبکہ مسلمانوں کی طرف سے 14 شہید ہوئے جن میں 6 مہاجرین اور 8 انصار تھے۔

تاریخ کے صفحات پر یہ واقعہ مسلمانوں کی پہلی بڑی فتح کے طور پر محفوظ ہے، یہ کامیابی بدر کے میدان میں سب سے زیادہ بنی ہاشم کی جانبازیوں کے سبب ظاہر ہوئی، خصوصاً امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی دلیری کے باعث، جو شرک کی جڑ کاٹنے اور اسلام کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے تڑپ رہے تھے۔

بعض تاریخی ماخذ بیان کرتے ہیں کہ بدر میں جن مشرکین کو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اپنے ہاتھوں واصلِ جہنم کیا، ان کی تعداد 35 افراد تک پہنچتی ہے، بعض منابع نے ان کے نام بھی ذکر کیے ہیں[6]۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے