سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

غزوۂ اُحد میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے ہاتھوں قریش کے بزرگوں کی ہلاکت

غزوۂ اُحد میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے ہاتھوں قریش کے بزرگوں کی ہلاکت

غزوۂ احد ان اہم ترین معرکوں میں سے ہے جن میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے رسولِ اکرم صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے ہمراہ شرکت فرمائی, اس جنگ میں آپ نے مشرکین کے مقابلے میں رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے مدافعِ جانثار کی حیثیت سے ڈٹ کر قیام کیا اور بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا۔

غزوۂ احد ان اہم ترین معرکوں میں سے ہے جن میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے رسولِ اکرم صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے ہمراہ شرکت فرمائی, اس جنگ میں آپ نے مشرکین کے مقابلے میں رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے مدافعِ جانثار کی حیثیت سے ڈٹ کر قیام کیا اور بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلامنے اس معرکے میں اکیلے ہی قریش کے ان جنگجوؤں سے مقابلہ کیا جو رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے قتل کے در پے تھے، آپ نے بہادری کے ساتھ ان سب کو شکست دی۔

اب آگے تاریخ کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ جنگِ اُحد میں کیا ہوا۔

غزوۂ اُحد میں، مشرکین نے انتقام کے لیے خود کو تیار کیا اور تقریباً تین ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک بڑی فوج جمع کی ابو سفیان نے اس لشکر کی تیاری پر بہت زیادہ خرچ کیا اور خود اس کی قیادت سنبھالی۔

قریش کے احد کی طرف روانہ ہونے سے پہلے عباس بن عبد المطلب نے رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے پاس ایک قاصد بھیجا اور انہیں قریش کی سازشوں اور تیاریوں سے آگاہ کیا، پیغمبر صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے وہ خط وصول کیا تو مقابلے کی تیاری شروع فرمائی، اور یہ واقعہ بدر کی جنگ کے اگلے سال، ماہِ شوال میں پیش آیا ۔

وہ منافق جس نے لشکرِ رسولِ اللہ صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کی تعداد کم کر دی

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ ایک ہزار یا اس سے کچھ زیادہ کے لشکر کے ساتھ باہر نکلے جس کے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام علمدار تھے، جب مدینہ اور احد کے درمیان پہنچے رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان پرچم تقسیم کیے۔

عبداللہ بن ابی جو منافقین کا سردار تھا، ایک تہائی لشکر لے کر واپس چلا گیا ، اس نے لوگوں سے کہا: ہم اپنی جانیں کیوں دیں؟ اے لوگو، واپس لوٹ جاؤ! کچھ لوگ واپس چلے گئے اور رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے ساتھ 700 افراد باقی رہ گئے۔

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ سات سو افراد کے ساتھ احد پہنچے، آپؐ نے اپنے اصحاب کو جنگ کے لیے تیار کیا اور معرکہ کے لیے ایسی حکمتِ عملی ترتیب دی کہ اللہ کے ارادے سے فتح اُن کے حصّے میں آئے۔

پیغمر اکرم صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے 50 تیر اندازوں کو اپنی فوج کے کیمپ کے پیچھے کوہِ احد پر تعینات کیا، عبداللہ بن جُبَیر نے اُنہیں حکم دیا کہ محاذ کو سنبھالے رکھیں اور اپنی جگہ سے حرکت نہ کریں، چاہے مسلمان شکست کھاتے ہی کیوں نہ دکھائی دیں، تب بھی اُن کی مدد نہ کریں اور اگر فتح ہو جائے تو غنیمت کے لیے اپنی جگہ سے نہ ہٹیں کیونکہ سب کچھ اُن کی اس مقام پر موجودگی پر منحصر ہے[1]۔

دشمن کے مقابل تلوار چلانے میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی پے در پے دلاوری

جب جنگ چھڑ گئی تو طلحہ بن ابی طلحہ جسے سپاہ کا قوچ کہا جاتا تھا، آگے بڑھا اور للکار کر کہا: کون ہے جو میرے مقابلے پر آئے گا؟ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اس کی طرف بڑھے اور دونوں لشکروں کے درمیان میدان میں آئے، اس وقت رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ اس سایہ دار خیمے میں تشریف فرما تھے جو آپ کے لیے تیار کیا گیا تھا اور آپ جنگ کا منظر دیکھ رہے تھے۔

طلحہ نے پوچھا: تم کون ہو؟
امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے فرمایا: میں علی، ابو طالب کا بیٹا ہوں۔
طلحہ بولا: مجھے یقین تھا کہ میرے مقابلے پر آنے کی جرأت تمہارے سوا کسی میں نہیں ہے۔

تلواریں ٹکرائیں تو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے ایک کاری وار کیا جس سے عتبہ (طلحہ) کا سر شگافتہ ہوگیا، اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور اس نے ایسی چیخ ماری جیسی اس سے پہلےکسی نے نہیں سنی تھی، اس وقت پرچم اس کے ہاتھ سے گر پڑا اور ذبح شدہ بیل  کی طرح خون میں تڑپنے لگا ، کہا جاتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے ایک اور ضرب سے اس کا پیر بھی کاٹ ڈالا، طلحه گر پڑا اور برہنہ ہو گیا۔ پھر آپ نے خدا کا شکر ادا کیا اور اسے چھوڑ دیا[2]۔

اس موقع پر رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ اور مسلمانوں نے تکبیر بلند کی۔ طلحه کے بعد اس کا بھائی عثمان بن ابی طلحہ آگے آیا، جناب حمزہ بن عبدالمطلب نے ایک ہی وار میں اس کا خاتمہ کر دیا، جناب حمزہ پیچھے ہٹتے ہوئے کہہ رہے تھے: میں حاجیوں کو سیراب کرنے والے کا بیٹا ہوں۔

ان دونوں کے بعد تیسرا بھائی ابوسعید بن ابی طلحہ پرچم تھام کر آیا۔ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا۔ پھر پرچم عطاء بن شرحبیل کے ہاتھ میں آیا، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اسے بھی مار ڈالا،آخرکار پرچم بنی عبدالدار کے ایک فرد نے اٹھایا، وہ بھی امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے ہاتھوں مارا گیا۔

شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں لکھتے ہیں: پرچم بردار نو (9) افراد تھے اور علی بن ابی طالب علیہ‌السلام نے ان سب کو قتل کیا،یوں وہ قوم شکست سے دوچار ہوئی[3]۔

جنگ اُحد کے پرچمداروں کو قتل کرنے کے بعد امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی حنگ

اکثر روایات تائید کرتی ہیں کہ پرچمداروں کے قتل اور دونوں لشکروں کے ٹکرانے کے بعد، جو بھی شخص امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے سامنے آیا اس کی تلوار ٹوٹ گئی اور ایسا وار کھایا کہ اس کا سر شگافتہ ہو گیا اور ہلاک ہوا ،یہاں تک کہ مسلمانوں نے ان کی عورتوں کو محاصرہ میں لے لیا جس کی وجہ سے ان کے دلوں پر خوف و وحشت طاری ہو گیا۔

احد میں جب رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا،اس وقت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا اقدام

جنگِ اُحد میں جو فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی تھی، وہ ابتدائی مرحلے تک محدود رہی، شروع میں کامیابی مسلمانوں کے حق میں تھی، مگر جب بعض تیر اندازوں نے رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے حکم کی نافرمانی کی اور غنیمت کے پیچھے دوڑ پڑے، تو منظر بدل گیا۔

جب مشرکین پسپا ہوئے اور کچھ ہاتھ نہ آیا، تو تیرانداز اپنی جگہ چھوڑ کر نیچے اتر آئے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ ان کے مسلمان بھائی غنیمت سمیٹنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے سردار عبداللہ بن جبیر نے انہیں روکا لیکن وہ نہیں رکے اور مالِ غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہو گئے، صرف دس آدمی عبداللہ بن جبیر کے ساتھ باقی رہ گئے۔

یہ دیکھ کر خالد بن ولید دو سو سواروں کے ساتھ اس رخ سے حملہ آور ہوا جہاں مسلمان بے خبر تھے اور ان چند تیر اندازوں کو نشانہ بنایا جو عبداللہ بن جبیر کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے،ابن جبیر نے نہایت دلیری سے مقابلہ کیا مگر شہید ہو گئے، مشرکین نے نئے سرے سے حملہ کیا اور مسلمانوں کو پیچھے سے گھیر لیا، مسلمان اچانک محاصرے میں آ گئے اور چاروں طرف سے تلواروں اور نیزوں کی زد میں آ کر بڑی بے رحمی سے مارے جانے لگے، صفوں میں ایسی افراتفری پھیلی کہ کچھ لوگ انجانے میں ایک دوسرے کو ہی قتل کرنے لگے۔

ان نازک لمحات میں مسلمان رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کو چھوڑ کر بھاگنے لگے لیکن امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو صرف اور صرف رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کی حفاظت کی فکر تھی،جب آپ نے دیکھا کہ مشرکین براہِ راست رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور انہیںؐ کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا تھا، تو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اور کچھ جاں نثار صحابہ رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے گرد حصار بن کر کھڑے ہو گئے۔ حضرت حمزہ اپنی شمشیر سے دشمن کو چیرتے جا رہے تھے اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام شکاری پرندے کی طرح دشمن پر جھپٹتے اور انہیں چیر پھاڑ کر پست کر دیتے تھے،دشمن گھوڑوں پر سوار تھے اور آپ پیادہ، مگر پھر بھی آپ نے انہیں رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ سے دور ہٹا دیا،یہاں تک کہ آپ کی شمشیر ٹوٹ گئی۔

خود رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ بھی شجاعانہ جنگ فرما رہے تھے، مشرکین آپ کو گھیرے ہوئے تھے اور ہر طریقے سے آپ کے قتل کی کوشش میں لگے تھے۔

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی جان بچانے میں شجاعت کا مظاہرہ کرنے کے بعد فرشتوں کے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے قصیدے

عِکرَمہ روایت کرتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب جنگ اُحد کے دن لوگ رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے گرد سے منتشر ہو گئے تو کچھ لمحے تک میرے ہوش اڑ گئے، میں آپ صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے سامنے تلوار چلا رہا تھا، پلٹ کر دیکھا تو آپ نظر نہیں آئے، میں نے کہا: یا رسول اللہ! کوئی نہیں ہے جو فرار کرے، میں نے آپؐ کو مقتولین میں بھی نہ پایا، مجھے گمان ہوا کہ شاید آپؐ آسمان میں چلے گئے ہیں۔

پس میں نے اپنی نیام توڑ ڈالی اور اپنے دل میں کہا: رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کے لیے اس وقت تک لڑوں گا جب تک شہید نہ ہو جاؤں، پھر میں حملہ آور ہوا اور اس طرح لڑائی کی کہ راستہ کھل گیا اور رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کو دیکھا جو بیہوشی کے عالم میں زمین پر تھے، میں آپ کے سرہانے کھڑا ہو گیا، آپ نے میری طرف نظر کی اور فرمایا: یا علی! لوگوں نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کفر پر پلٹ گئے، پیٹھ دکھا گئے اور ہتھیار ڈال دیے۔

اسی وقت آپ نے ایک گروہ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو فرمایا: یا علی! انہیں مجھ سے دور کر دو،میں نے ان پر حملہ کیا، دائیں اور بائیں سے وار کرتا گیا یہاں تک کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے، رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے مجھ سے فرمایا: آپ کو آسمانوں میں اپنی مدح و ثنا سنائی دے رہی ہے؟ فرشتہ رضوان ندا دے رہا ہے: لا سیفَ إلا ذو الفقار ولا فتى إلا علی؛ ذو الفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوانمرد نہیں۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے خداوند سبحان کا شکر ادا کیا[4]۔

ہند بنت عتبہ بن ربیعہ کا انسانیت سوز کام اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کا شدید رنج

اسی جنگ میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علیہ‌السلام جبیر بن مطعم کے غلام وحشی کے ہاتھوں نیزے کی ضرب سے شہید ہوئے،پھر ہند بنتِ عتبہ نے آپ کی لاش کے ساتھ بدترین سلوک کیا: ناک کاٹی، کلیجہ نکالا اور اسے چبایا،رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ اس پر شدید غمگین ہوئے اور فرمایا: میرے اوپر آپ کی مصیبت جیسی کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی

جنگِ اُحد میں مشرکین کے مقتولین اور مسلمانوں کے شہداء کی تعداد

جب مشرکین اپنی انتھک کوششوں کے باوجود رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کو شہید کرنے میں ناکام ہوئے تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے اور وہ بے بس ہو گئے،اس جنگ میں 68 مسلمان شہید ہوئے اور 22 مشرک مارے گئے، آخرکار اللہ تعالیٰ نے کافروں کے ساتھ قتال کی زحمت مؤمنین سے دور کر دی اور یہ عظیم ذمہ داری امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے ہاتھوں انجام پائی۔
جنگ احد سے واپس آنے کے بعد رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ اور  امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی صورتحال

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے، ہفتہ کے روز مدینہ واپس لوٹے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک پیالۂ آب لے کر استقبال کو آئیں اور رسول کا چہرہ دھویا۔

 امیرالمؤمنین علیہ‌السلام بھی آگے آئے، جبکہ اُن کے ہاتھ کندھوں تک خون میں لت پت تھے، آپ نے ذو الفقار جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سپرد کی اور فرمایا: میری تلوار پکڑو کہ اس نے آج میری بہت مدد کی اور یوں نغمہ کہا:

اے فاطمہ! تلوار پکڑو کہ اس نے جنگ میں میرا
ساتھ دیا اور میں نے کبھی کمر خم نہیں کی

میری جان کی قسم کہ میں نے احمدِ مصطفیٰؐ کی مدد میں
اور دانا خُدا کی عبادت میں کبھی کوتاہی نہ کی

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے فرمایا: فاطمہ! اسے لیجئے کہ آپ کے شوہر نے حق ادا کر دیا ہے؛ خداوند نے قریش کے بزرگوں کو اسی کی تلوار سے مارا[5]۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے