آج زیر بحث آیت سورہ انعام کی آیت نمبر 59 ہے۔
اللہ تعالیٰ سورہ انعام کی آیت 59 میں ارشاد فرماتا ہے:
«وَ عِنْدَهُ مَفاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُها إِلاَّ هُوَ وَ يَعْلَمُ ما فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ ما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُها وَ لا حَبَّةٍ في ظُلُماتِ الْأَرْضِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلاَّ في كِتابٍ مُبينٍ؛
"اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ جو کچھ خشکی اور سمندر میں (ہو رہا) ہے جانتا ہے۔ کوئی پتّا (درخت سے) نہیں گرتا مگر یہ کہ وہ اس (کے گرنے) کو جانتا ہے۔ اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے، اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ خشک، مگر یہ کہ (یہ سب) ایک واضح کتاب (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے۔”
امام جعفر صادق علیہالسلام فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہالسلام سے فرمایا: "اور ہم نے الواح میں ہر موضوع سے متعلق کچھ نصیحت لکھ دی” (سورہ اعراف: 145)، لیکن یہ نہیں فرمایا "ہر موضوع” سے متعلق سب کچھ لکھ دیا، حضرت عیسیٰ علیہالسلام کے بارے میں فرمایا: "تاکہ میں تمہارے بعض اختلافات تمہیں بتا دوں” (سورہ زخرف: 63) لیکن حضرت علی بن ابی طالب علیہالسلام کے بارے میں فرمایا: "اور وہ، وہ شخص ہے جس کے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے” (سورہ رعد: 43)۔ نیز فرمایا: "اور ہر خشک و تر ایک واضح کتاب میں (درج) ہے”۔ پس ہر تر و خشک کا علم حضرت علی علیہالسلام کے پاس ہے۔ [1]
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہالسلام نے فرمایا:
یہ آیہ کریمہ جس میں خدا فرماتا ہے: (اے پیغمبر! کافروں سے) کہہ دیجیے: "میں اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے” (سورہ رعد: 43)۔ نیز اللہ فرماتا ہے: "اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ خشک مگر یہ کہ ایک واضح کتاب میں (درج) ہے”اے عبد اللہ! اس کتاب کا علم بلاشبہ اور بے شک میرے (یعنی علی) کے پاس ہے جو مالک وہاب کی طرف سے ہے۔”
یہاں مراد یہ ہے کہ حضرت علی (ع) رسول اللہ (ص) کی رسالت کی سچائی پر گواہ ہیں۔ [2]
امام موسیٰ کاظم علیہالسلام نے فرمایا:
"کِتابٍ مُبِینٍ (واضح کتاب) سے مراد حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام ہیں۔” [3]
