فتحِ مکہ، جسے تاریخِ اسلام میں ’’فتح الفتوح‘‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے، پیغمبر اکرم صلیاللهعلیہوآلہ کی اُن عظیم کامیابیوں میں سے ہے جن میں امیرالمؤمنین علیہالسلام نے دیگر معرکوں کی طرح اس میں بھی بھرپور شرکت فرمائی۔
اس غزوہ میں، جب امیرالمؤمنین علیہالسلام نے خالد بن ولید کی پیدا کردہ خرابی کی اصلاح فرمائی، تو پیغمبر اکرم صلیاللهعلیہوآلہ نے اُن سے محبت و فدایت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔‘‘
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے پیغمبر خدا کے حکم سے مکہ میں اسلام کا پرچم بلند کیا اور خانہ کعبہ میں موجود بتوں کو توڑا، فتحِ مکہ کے اس واقعے کی تفصیل اور حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے بے نظیر کردار کو آگے بیان کیا گیا ہے۔
قریش کی پیمان شکنی، پیغمبر صلیاللهعلیہوآلہ کے مکہ فتح کرنے کا سبب
شہر مکہ، ہجرتِ رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ کے آٹھویں سال ماہِ رمضان میں فتح ہوا[1]۔ اس اقدام کا سبب یہ تھا کہ قریش نے وہ صلح نامہ توڑ دیا تھا جو انہوں نے رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ کے ساتھ حدیبیہ میں طے کیا تھا۔ قریش نے نہ صرف اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، بلکہ اپنے ہمپیمان قبیلہ بنی دوئل کو، جو بنی بکر کی شاخ تھا، اس بات پر ابھارا کہ وہ خزاعہ پر حملہ کریں، جو پیغمبر صلیاللهعلیہوآلہ کے حلیف تھے۔ بنی دوئل نے قریش کی مدد سے خزاعہ پر چڑھائی کی اور انہیں شکست دی۔ جب یہ خبر رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ تک پہنچی، تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ خزاعہ کی حمایت میں
حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کی قاطعیت نے مکہ کی فتح کے لیے لشکر کی تیاری کے راز کو فاش ہونے سے بچا لیا
پس رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے اپنی فوج کو آمادہ فرمایا اور اس معاملے کو پوشیدہ رکھنے کی سخت تاکید کی، تاکہ قریش کو اس کی خبر نہ ہو اور وہ جنگ کی تیاری نہ کر سکیں۔ آپ نے دعا فرمائی: ’’بارالہا! ان کی آنکھیںوں پر پردہ ڈال دے، تاکہ وہ مجھے نہ دیکھ سکیں اور ہم اچانک اُن تک جا پہنچیں۔‘‘
یہ راز ’’حاطب بن ابی بلتعہ‘‘ تک پہنچا، چنانچہ اس نے مکہ والوں کے نام ایک خط لکھا اور ان کو رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ کی خفیہ روانگی کی اطلاع دی اور خط ایک سیاہ فام عورت کے حوالے کیا تاکہ وہ اُسے ایک غیر معروف راستے سے مکہ پہنچائے۔
اسی وقت وحی نازل ہوئی، رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کو طلب کیا اور ارشاد فرمایا: ’’میرے بعض اصحاب نے مکہ والوں کو خط لکھا ہے اور انہیں ہماری تیاری سے باخبر کر دیا ہے، حالانکہ میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ ہمارے حالات ان پر پوشیدہ رکھے۔
خط ایک سیاہ فام عورت کے پاس ہے جو بیابان کے راستے سے جا رہی ہے۔ اپنی تلوار لے کر روانہ ہو جائیے اور اس سے خط واپس لے آئیے۔‘‘ آپؐ نے زبیر بن عوام کو بھی امیرالمؤمنین علیہالسلام کے ساتھ بھیجا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے غیر معروف راستے سے سفر کیا اور اس عورت کو تلاش کیا، زبیر اس کے قریب پہنچے اور اس سے خط کے متعلق پوچھا، عورت نے انکار کیا اور قسم کھائی کہ اس کے پاس کچھ نہیں، پھر رونے لگی۔
زبیر نے کہا: ’’اے ابو الحسن! مجھے تو کوئی خط نظر نہیں آتا۔‘‘
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: ’’رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے فرمایا ہے، تو یقینا اس کے پاس خط موجود ہے اور آپؐ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں وہ خط واپس لاؤں،‘‘ زبیر نے کہا: ’’میرے خیال میں تو اس کے پاس کچھ نہیں۔‘‘
تب امیرالمؤمنین علیہالسلام نے تلوار کھینچی اور فرمایا: ’’خدا کی قسم! اگر تو نے خط نہ دیا تو تجھے رسوا کروں گا اور تیری گردن اڑا دوں گا۔‘‘
عورت نے کہا: ’’اگر معاملہ ایسا ہے تو منہ موڑ لو۔‘‘
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے منہ موڑا، تو اس نے اپنی چادر ہٹائی اور خط کو اپنے بالوں میں سے نکال کر دے دیا، امیرالمؤمنین علیہالسلام نے وہ خط لے کر رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ کی خدمت میں پیش کیا[2]۔
پرچمِ لشکر سعد بن عبادہ اور اسے حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے سپرد کرنے کا واقعہ
اس کے بعد، رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ دس ہزار جان نثار مجاہدوں کے ساتھ مکہ کی فتح کے لیے روانہ ہوئے اور لشکر کا پرچم سعد بن عبادہ کے سپرد کیا، اور حکم فرمایا کہ وہ مکہ میں داخل ہوں۔
سعد نے پرچم تھام کر بلند آواز سے کہا:”آج قتل و قتال، جنگ اور انتقام کا دن ہے،آج حرمتیں ٹوٹنے کا دن ہے۔”
ایک مہاجر صحابی نے سعد کی یہ باتیں سنیں اور فوراً رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ کو خبر دی۔
آپ نے فرمایا:”آج رحمت و مہربانی کا دن ہے،
اور حرمتیں محفوظ رکھی جائیں گی۔”
اس کے بعد رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کو حکم دیا:”سعد سے پرچم لے لیجئے اور خود شہر میں داخل ہو جائیے[3]۔”
فتحِ مکہ کے موقع جن افراد کا خون پیغمبر صلیاللهعلیہوآلہ نے پر مباح قرار دیا
رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے مکہ کی جانب پیش قدمی فرمائی اور ایک ایسے عظیم لشکر کے ہمراہ شہر میں داخل ہوئے جس کی نظیر تاریخِ مکہ نے اس سے قبل نہ دیکھی تھی، آپ نے اہلِ مکہ سے فرمایا: ’’جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘
تاہم، آپ نے چھ مردوں اور چار عورتوں کے قتل کا حکم صادر فرمایا، اگرچہ ان میں بعض نے پردۂ کعبہ کو تھام رکھا تھا، ان افراد کے نام درج ذیل ہیں: عِکرمہ بن ابی جہل، ہبار بن اسود، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، مُقیس بن صُبابہ لیثی، حُوَیرث بن نُقیذ، عبداللہ بن ہلال بن خَطَل اَدرَمی، ہند بنت عُتبہ، سارہ (جو عمرو بن ہاشم کی کنیز تھی اور ایک اور کنیز کے ساتھ رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ کی ہجو میں گانے گاتی تھی[4])۔
حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام ان افراد کی تلاش میں نکلے جن کا خون رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے مباح قرار دیا تھا، اور ان میں سے حویرث بن نقیذ اور سارہ کو ہلاک کر دیا۔
اس دوران، ’’ام ہانی‘‘ دخترِ ابو طالب، نے ’’حارث بن ہشام‘‘ اور ’’عبداللہ بن ربیعہ‘‘ کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی، امیرالمؤمنین علیہالسلام نے ان دونوں کو قتل کرنا چاہا تو رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے فرمایا: یا علی! جس کو ام ہانی نے پناہ دی ہے، میں بھی اُسے پناہ دیتا ہوں[5]۔‘‘
باقی افراد ادھر ادھر منتشر ہو گئے، اور جو لوگ رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ سے امان حاصل کر چکے تھے، وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔
خالد بن ولید کے سفاکانہ اقدام کے بعد رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ کی کا امیرالمؤمنین علیہالسلام کے ساتھ خاص اظہار محبت
رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے قریش کے سامنے تمام بتوں کو نیست و نابود کر دیا، نہ خانۂ کعبہ کے اندر کوئی بُت باقی چھوڑا، نہ باہر۔
مکہ میں قیام کے دوران، آپ نے خالد بن ولید کو قبیلۂ بنی جذیمہ بن عامر کی جانب روانہ فرمایا،جب خالد اُس قبیلے کے پاس پہنچا، تو ان سے کہا: ’’اپنے ہتھیار زمین رکھ دو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’خدا اور اس کے رسول کی قسم! ہم نے ہتھیار نہیں اٹھائے ، ہم مسلمان ہو چکے ہیں۔‘‘ خالد نے دوبارہ کہا: ’’اپنے ہتھیار زمین رکھ دو، ‘‘ اس پر انہوں نے کہا: ’’ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں تم ہمارے ساتھ جاہلیت جیسا سلوک نہ کرو، ‘‘ خالد نے ان سے منہ موڑا، اہلِ قبیلہ نے اذان دی اور نماز پڑھی، مگر خالد نے صبح دم گھوڑے پر سوار ہو کر ان پر حملہ کیا، ان میں سے بعض کو قتل کیا اور ان کے بچوں کو قید کر لیا۔
جب یہ خبر رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا: ’’پروردگارا! میں ان کاموں سے بری ہوں جو خالد بن ولید نے کیے۔‘‘ پھر آپ نے امیرالمؤمنین علیہالسلام کو ان کی طرف بھیجا تاکہ جو کچھ خالد نے بطورِ غنیمت حاصل کیا تھا، وہ واپس کر دیں حتی اونٹ کے زانوبند اور کتے کا پانی پینے کا برتن بھی، مزید برآں، وہ مال بھی جو یمن سے مقتولین کی دیت کے طور پر آیا تھا، آپؐ نے امیرالمؤمنین علیہالسلام کے ہمراہ روانہ فرمایا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے ویسا ہی کیا، یہاں تک کہ وہ لوگ رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ سے راضی ہو جائیں ، ان امور پر بھی جن کے وہ خود گواہ تھے اور ان پر بھی جو ان کی نگاہ سے پوشیدہ تھے، اس موقع پر رسول خدا صلیاللهعلیہوآلہ نے امیرالمؤمنین علیہالسلام سے فرمایا: ’’جو کچھ آپ نے کیا، وہ مجھے ان سرخ اونٹوں کے عطیے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
اسی روز، پیغمبر اکرم صلیاللهعلیہوآلہ نے امیرالمؤمنین علیہالسلام سے فرمایا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں[6]۔‘‘
یوں اصلاح کا عمل مکمل ہوا اور فساد کے تمام اسباب ختم کر دیے گئے۔
