سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

غزوہ حنین میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کی حفاظت

غزوہ حنین میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کی حفاظت

غزوہ حنین اسلام کے ابتدائی دور کی سخت ترین جنگوں میں سے ایک تھی، جس میں رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے آپ کے جان کی حفاظت فرمائی، اس جنگ میں بھی اسلام کے ابتدائی دور کی تمام جنگوں کی طرح، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام سب سے زیادہ طاقتور اور بہادر ثابت ہوئے، آگے چل کر آپ غزوہ حنین کے واقعات اور اس کی تفصیلات پڑھیں گے۔

غزوہ حنین اسلام کے ابتدائی دور کی سخت ترین جنگوں میں سے ایک تھی، جس میں رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے آپ کے جان کی حفاظت فرمائی، اس جنگ میں بھی اسلام کے ابتدائی دور کی تمام جنگوں کی طرح، امیرالمؤمنین علیہ‌السلام سب سے زیادہ طاقتور اور بہادر ثابت ہوئے، آگے چل کر آپ غزوہ حنین کے واقعات اور اس کی تفصیلات پڑھیں گے۔

غزوه حنین

غزوهٔ حنین در ماہ شوال سن آٹھ هجری میں واقع ہوئی،جب رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کو اطلاع ملی کہ بہت سے قبائل ہوازن حنین میں جمع ہو کر مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تو آپ صلی‌الله‌علیه‌وآله بارہ ہزار افراد پر مشتمل ایک بڑی فوج کے ساتھ ہوازن کی طرف روانہ ہوئے۔

پرچم مهاجرین امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے ہاتھ میں تھا اور دیگر پرچم قبائل کے سرداروں اور فرمانرواؤں میں تقسیم کیے گئے۔

جنگ حنین میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے ذاتی محافظ

جابر بن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ جب ہم وادی حنین پہنچے تو صبح کی تاریکی میں وادی اجوف میں اترے، جبکہ دشمن کی فوج ہم سے پہلے ہی اس وادی میں پہنچ چکی تھی اور پہاڑوں اور تنگ راستوں میں کمین کیے ہوئے تھی۔

قسم ہے خدا کی، دشمن کی فوج نے ہم پر شدید حملہ کیا، جس سے بہت سارے مسلمان شہید ہو گئے، ہم شکست کھا رہے تھے، یہاں تک کہ صرف چند مهاجرین، انصار اور بنی ہاشم رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے ساتھ باقی رہ گئے۔

جابر بن عبدالله مزید کہتے ہیں: ہر حال میں مورخین متفق ہیں کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اور اکثر بنی ہاشم اس بحران کے دوران رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے ساتھ باقی رہے۔
امیرالمؤمنین علیہ‌السلام دشمنوں کو اپنی تیز شمشیر سے رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله سے دور رکھتے تھے ، اس سے پہلے کی بھی تمام جنگوں میں ان کا یہی معمول تھا، اس طرح سے کہ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی تلوار کا سامنا کیے بغیر کوئی بھی رسول خدا کے قریب نہیں پہنچ سکتا تھا ۔

جابر بن عبدالله روایت کرتے ہیں: ہوازن کا ایک شخص، سرخ اونٹ پر سوار، ہاتھ میں سیاہ پرچم لیے، لوگوں کے سامنے کھڑا تھا، اس نے ایک شخص کو دیکھا، اسے مارا اور اپنا پرچم بلند کیا تاکہ لوگ اس کے پیچھے آئیں، اس موقع پر حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا۔

جنگ حنین مسلمانوں کی شکست کے بعد رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کا اقدام

جب مسلمانوں کی فوج شکست کھا رہی تھی، رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے حضرت عباس نے فرمایا: انصار کو صدا دیجئے، حضرت عباس نے بلند آواز میں پکارا: اے انصار، اے اصحاب سمرہ، اے اصحاب سورہ بقرہ! سب لوگ ایسے جمع ہوئے جیسے اونٹ اپنے بچوں کی محبت میں دوڑا آتا ہے، پھر انہوں نے لبیک کہا اور مشرکین پر حملہ کیا۔

رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے میدانِ جنگ کی طرف نظر ڈالی اور فرمایا: اب جنگ سخت ہو گئی ہے، یہ پہلا موقع تھا جب آپ نے یہ عبارت استعمال کی، پھر فرمایا: میں رسول خدا ہوں اور یہ جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

لوگ سختی سے لڑے اور رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے دشمن کے چہروں پر مٹی چھڑکی، جس سے وہ شکست کھا گئے نیز روایت ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے چالیس دشمنوں کو قتل کیا، مسلمانوں میں ایمن بن ام ایمن، یزید بن زمعہ بن اسود بن مطلب بن عبدالزی اور چند دیگر افراد شہید ہوئے۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے