سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے غزوۂ تبوک کے موقع پر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو ہارون کہہ کر کیوں خطاب کیا؟

رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے غزوۂ تبوک کے موقع پر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو ہارون کہہ کر کیوں خطاب کیا؟

غزوۂ تبوک رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کا آخری غزوہ تھا، اس موقع پر آپ صلی‌الله‌علیه‌وآله نے مدینہ کے حالات پر کڑی نظر رکھنے اور منافقین کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو مدینہ میں چھوڑا۔

غزوۂ تبوک رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کا آخری غزوہ تھا، اس موقع پر آپ صلی‌الله‌علیه‌وآله نے مدینہ کے حالات پر کڑی نظر رکھنے اور منافقین کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو مدینہ میں چھوڑا۔

اسی غزوہ کے موقع پر رسول اللہ صلی‌الله‌علیه‌وآله نے حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو اپنا بھائی اور موسیٰؑ کے لیے ہارونؑ کے مانند قرار دیا، جنگ تبوک کے لیے جاتے وقت رسولِ خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے لیے جو یہ تعبیر استعمال کی، کسی دوسرے صحابی کے لیے کبھی بھی استعمال نہیں ہوئی۔
آگے چل کر آپ پیغمبر اسلام صلی‌الله‌علیه‌وآله کی آخری جنگ اور فتنوں کو ناکام بنانے میں حضرت امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے کردار کے بارے میں مزید پڑھیں گے۔

غزوہ تبوک رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کی آخری جنگ تھی جو رجب سنہ ۹ ہجری میں پیش آئی، جب آپؐ کو اطلاع ملی کہ رومیوں نے شام کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملے کے لیے تیار کیا ہے، تو آپؐ نے کسی تردید کے بغیر مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ لشکر تیار کریں، اس جنگ کو راستے کی سختی، شدید گرمی اور دشمن کی کثرت کے باعث جیش العسرہ بھی کہا جاتا ہے۔

غزوہ تبوک میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے ساتھ کیوں نہیں تھے؟

رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله اس جنگ میں 30 ہزار سپاہیوں اور 10 ہزار گھوڑوں کے ساتھ تبوک روانہ ہوئے، مگر امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو مدینہ میں چھوڑ دیا اور نے فرمایا:یا میں مدینہ میں رہوں یا آپ رہیں، کیونکہ مدینہ کا نظام ہم دونوں میں سے کسی ایک کی موجودگی کے بغیر نہیں چل سکتا۔

یہی وہ واحد جنگ تھی جس میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے ساتھ نہیں تھے،ان کا مدینہ میں باقی رہنا اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت میں تھا، خصوصاً اس وقت جب رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے لیے منافقین کی سازشیں واضح ہو چکی تھیں اور ان کے فتنے کو قابو میں رکھنا ضروری تھا۔

رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کے فرمان نے منافقین کی افواہوں کو مٹی میں ملا دیا

منافقین نے یہ افواہ پھیلائی کہ رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو مدینہ میں بوجھ سمجھ کر اور حقیر جان کر چھوڑا ہے،جب امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ مسلح ہو کر رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں منافقین کی باتوں سے آگاہ کیا۔

رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے فرمایا: جھوٹ بول رہے ہیں وہ میں نے آپ کو اپنی غیر موجودگی میں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔ کیا آپ اس بات پر خوش نہیں میں کہ آپ میرے لیے وہی مقام رکھتے ہیں جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے؟ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے فرمایا: میں خوش ہوں، میں خوش ہوں،اس کے بعد آپؑ مدینہ واپس آ گئے اور رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله اپنی فوج کو لے کر جنگ کے لیے چلے گئے۔

شیخ مفید سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی‌الله‌علیه‌وآله نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام سے فرمایا: اے میرے بھائی! اپنی جگہ واپس چلے جائیے، کیونکہ میری یا آپ کی موجودگی کے بغیر مدینہ کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
آپ میری غیر موجودگی میں میرے خاندان میں میرے جانشین ہو، کیا آپ اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ آپ میرے لیے وہی مقام رکھتے ہیں جو ہارونؑ کا موسیٰؑ کے لیے تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے؟

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے