جنگ جمل، وہ پہلی جنگ تھی جو خلافت حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے دوران پیش آئی، یہ وہ موقع تھا جب امیرالمؤمنین علیہالسلام کے عدل و انصاف پسندی کا پہلا عملی مظہر نظر آیا۔ حضرت نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت میں عرب کو عجمی پر برتری نہیں ہے، ایک بیان جو طلحہ اور زبیر کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
آگے چل کر، آپ اس فتنے کے بارے میں مزید جانیں گے جسے طلحہ اور زبیر نے حضرت امیرالمؤمنین علیہالسلام کے حق و اصول حکمرانی کے خلاف بھڑکایا اور اس جنگ و فساد کے آغاز کرنے والوں کے لیے اس کے تلخ انجام کے بارے میں بھی تفصیل سے پڑھیں گے۔
جنگ جمل کے شعلے کیسے بھڑکے؟
یہ سیاست باغیوں کو امیرالمؤمنین علیہالسلام کی حکومت کے خلاف بھڑکانے کا باعث بنی، چنانچہ انہوں نے حضرت کے خلاف بغاوت اٹھائی، جب طلحہ اور زبیر نے محسوس کیا کہ امیرالمؤمنین علیہالسلام انہیں دیگر لوگوں پر کسی بھی طرح کی فوقیت نہیں دیتے اور ضرورت مندوں و فقرا کے برابر سہولتیں فراہم کرتے ہیں، تو انہوں نے ناچاہتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور پھر قیام کیا۔
انہوں نے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے بنی امیہ کے ساتھ الحاق کیا اور امیرالمؤمنین علیہالسلام کے خلاف جنگ کی سازش اور منصوبہ بندی شروع کی، اور یوں جنگ جمل کے شعلے بھڑک اٹھے۔
جنگ جمل بصرہ سے باہر، عبیدالله بن زیاد کے قصر کے قریب ہوئی، امیرالمؤمنین علیہالسلام کی فوج کی تعداد تقریباً ۲۰ ہزار اور مقابل لشکر کی تعداد تقریباً ۳۰ ہزار تھی۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی حکمت عملی اور جنگی نصیحتیں
جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو امیرالمؤمنین علیہالسلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: جنگ کا آغاز نہ کرو، اگر لڑنا پڑےتو زخمیوں کو تکلیف نہ دو، اگر وہ شکست کھائیں تو پیچھے ہٹنے والوں کا پیچھا نہ کرو، ان کی شرمگا ہوں کو آشکار مت کرو، مقتولین کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو، اگر ان کے خیموں تک پہنچو تو پردہ دری نہ کرو اور کسی کے گھر بغیر اجازت داخل نہ ہو، ان کے مال و متاع کو غارت مت کرو اور عورتوں کو اذیت و تکلیف نہ دو، چاہے وہ تمہیں بآرا بھلا کہیں اور تمہارے صالح اور رہنماؤں کے بارے میں بدزبانی کریں۔
جنگ شروع کرنے اصحابِ جمل کی پہل اور امیرالمؤمنین علیہالسلام کی اتمامِ حجت
کہا جاتا ہے کہ اس دن کا پہلا شہید مسلم جہنی تھے جنہیں امیرالمؤمنین علیہالسلام نے حکم دیا کہ قرآن لے جا کر لوگوں کے درمیان طواف کروایا جائے اور انہیں کتاب خدا کی طرف دعوت دی جائے، مگر وہ جمل کی فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
اس کے بعد اصحابِ جمل نے امیرالمؤمنین علیہالسلام کی فوج کی طرف تیر چلائے، جس سے بعض افراد شہید ہوئے، اصحاب نے حضرت سے کہا کہ ان کے تیر ہمیں زخمی کر چکے ہیں اور ہمارے افراد شہید ہو چکے ہیں۔
اس وقت امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا: خداوندا گواہ رہنا۔ پھر آپ نے رسول اللہ صلیاللهعلیهوآله کی زِرّہ پہنی، آپؐ کی مبارک تلوار اٹھائی اور رسول اللہ صلیاللهعلیهوآله کا سیاہ پرچم جسے مجازات کہا جاتا تھا بلند کیا اور اسے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کے سپرد کیا۔
میدانِ جنگ میں امیرالمؤمنین علیہالسلام کی گفتگو اور طلحه و زبیر کو کچھ یاد دہانیاں
دونوں گروہ ایک دوسرے کے مقابل آئے، زبیر اور طلحه اپنی صفوں سے نکلے، امیرالمؤمنین علیہالسلام ان کے پاس گئے، اتنا قریب کہ ان کے گھوڑوں کے سر اور گردن ایک دوسرے سے مل گئے، امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا:
قسم ہے میری جان کی کہ تم نے ہتھیار اور گھوڑے اور جنگ کے لیے فوج تیار کر لی ہے مگر کاش خدا کے لیے بھی کوئی عذر تیار کر لیتے، تقویٰ اختیار کرتے اور اس شخص کی مانند نہ ہوتے جو اپنی قسموں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے لیے دستاویز بنا لیتا ہے، کیا تم میرے دینی بھائی نہیں ہو کہ میرا خون تم پر حرام تھا اور تمہارا بھی مجھ پر؟ کیا ہوا کہ تم نے میرا خون حلال کر دیا؟
طلحه نے کہا: آپ نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکایا تھا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا:
اس دن دین حق کو پورا کرے گا، طلحه! تم عثمان کے خون کا بدلہ چاہتے ہو؟ اللہ لعنت کرے ان لوگوں پر جنہوں نے عثمان کو قتل کیا۔ طلحه، تم رسول اللہ صلیاللهعلیهوآله کی زوجہ کو میدان جنگ میں لئے ہو جبکہ تمہاری اپنی بیوی گھر میں پردہ نشین ہے؟ کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟
طلحه نے جواب دیا: میں نے بیعت اس حالت میں کی تھی جب میرے گلے پر تلوار تھی۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے زبیر سے فرمایا:اے زبیر! تم کیوں آئے ہو ؟ ہم تمہیں بنی عبدالمطلب سے مانتے تھے، جب تمہارا بغاوتی بیٹا عبداللہ بڑا ہوا تو اس نے ہمارے درمیان اختلاف ڈال دیا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے اسے اور چیزیں بھی یاد دلائیں اور فرمایا:یاد ہے جب میں رسول اللہ صلیاللهعلیهوآله کے ساتھ تھا اور بنی غنم کی قبیلے سے گذرتے تھے؟ رسول اللہ نے مجھ پر نظر کی اور مسکرائے، میں بھی ہنسا۔ تم نے کہا : ابوطالب کا بیٹا تکبر نہیں چھوڑے گا، رسول اللہ صلیاللهعلیهوآله نے تم سے فرمایا: وہ فخر فروشی نہیں کر رہا، تم اس سے جنگ کرو گے اور ظالموں میں شامل ہو جاؤ گے۔
زبیر نے کہا: قسم ہے خدا کی، بالکل! اگر مجھے یاد ہوتا تو کبھی اس راستے میں قدم نہ رکھتا، قسم ہے خدا کی کہ میں تم سے جنگ نہیں کروں گا۔
دونوں لشکروں کے درمیان جنگ اتنی شدید ہوئی کہ بصرہ کی تاریخ نے ایسی سخت جنگ کبھی نہیں دیکھی تھی، مروان بن حکم نے طلحه کی طرف تیر پھینکا، جبکہ وہ امیرالمؤمنین علیہالسلام کے خلاف لڑ رہا تھا اور کہہ رہا تھا: اب میں خون کا بدلہ لینے نہیں آؤں گا۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کی فراست اور اصحاب جمل کی شکست کے ساتھ جنگ جمل کا اختتام
جنگ سختترین حالات میں جاری تھی اور چاروں طرف صرف گردوغبار، کٹے ہوئے ہاتھ پیر، اور زمین پر پڑی ہوئی لاشیں ہی نظر آ رہی تھیں، جب امیرالمؤمنین علیہالسلام نے دونوں طرف کے یہ خوفناک صورتحال دیکھی تو سمجھ گئے کہ جب تک اونٹ زمین پر نہ گرے، جنگ ختم نہیں ہوگی۔ لہذا فرمایا:
اونٹ پر تیر برساؤ اور اس ٹانگیں کاٹ دو، ورنہ عرب تباہ ہو جائے گا، کیونکہ جب تک اونٹ نہیں مرتا اور زمین پر نہیں گرتا، تلواریں بلند ہیں۔
انہوں نے اونٹ کے گھٹنے پر شمشیر کے وار سے اسے زمین پر گرایا، اور اونٹ نے ایسی خوفناک چیخ ماری جو آج تک سنی نہیں گئی، سب لوگ چیونٹیوں اور ٹڈوں کی طرح اطراف میں بکھر گئے اور یوں جنگ اصحاب جمل کی شکست کے ساتھ ختم ہوئی۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام کا عائشہ کے ساتھ احترام آمیز سلوک
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے حکم دیا کہ عائشہ کے کجاوے کو لاشوں کے درمیان سے باہر نکالا جائے اور محمد بن ابوبکر، ان کے بھائی، کو ہدایت دی کہ عائشہ کے لیے خیمہ لگائیں اور فرمایا:دیکھو وہ زخمی تو نہیں ہوئیں؟
جب رات ہوئی، محمد بن ابوبکر نے اپنی بہن عائشہ کو بصرہ میں صفیہ بنت حارث کے گھر منتقل کیا، پھر امیرالمؤمنین علیہالسلام بصرہ میں داخل ہوئے اور ہر قبیلہ اپنے پرچم کے ساتھ کی آپ کی بیعت کرنے آیا، یہاں تک کہ زخمی اور پناہ گزین بھی بیعت میں شامل ہوئے۔
بعد میں امیرالمؤمنین علیہالسلام نے عائشہ کو ہر ضروری سامان، مرکب اور توشے کے ساتھ روانہ کیا اور جو لوگ بچ گئے تھے انہیں بھی ان کے ساتھ بھیجا سوائے ان لوگوں کے جو بصرہ میں رہنا چاہتے تھے نیز بصرہ کی چالیس خواتین کو منتخب کیا گیا اور عائشہ کو ان کے بھائی محمد بن ابوبکر کے ساتھ روانہ کیا گیا۔
