آج زیر بحث آیت سورۂ تغابن کی آیت نمبر 8 ہے۔
خداوند متعال فرماتا ہے:
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
"پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے، اور اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔”
امام موسیٰ کاظم علیہالسلام:
امام موسیٰ کاظم علیہالسلام سے روایت ہے کہ آیت میں ذکر شدہ "نور” سے مراد امامت اور ولایت ہے۔ آپ نے فرمایا:
"خداوند متعال نے جو فرمایا ہے: ‘وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں’ (سورۂ صف:8)، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کی ولایت کو باطل باتوں سے بجھانا چاہتے ہیں۔”
اور "ولیکمّلن نورہ” کے بارے میں فرمایا: "خداوند امامت کو کامل کرے گا، اور امامت ہی نور ہے۔”
اور "فَآمِنُوا… وَالنُّورِ” کے بارے میں فرمایا: "نور سے مراد امام ہے۔” [1]
امام محمد باقر علیہالسلام:
"خدا کی قسم! اے ابوخالد! ‘نور’ سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں۔”
آپ نے فرمایا: "مؤمن کے دل میں امام کا نور، چمکتے ہوئے سورج کے نور سے بھی زیادہ روشن ہوتا ہے۔ یہی ائمہ ہیں جو مؤمنوں کے دلوں کو منور کرتے ہیں۔” [2]
امیرالمؤمنین علیہالسلام:
امیرالمؤمنین علیہالسلام سے "نور” کی قرآن میں مختلف انواع کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
"نور قرآن ہے، نور اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، نور روشنی ہے، نور چاند ہے، اور نور مؤمن کی روشنی ہے جو تقویٰ اور پیروی (خدا اور اس کے جانشینوں کی) ہے۔”
آپ نے خاص طور پر "آمِنُوا… وَالنُّورِ” کے بارے میں فرمایا: "اس سے مراد خداوند سبحانہ کی طرف سے قرآن اور تمام معصوم اوصیاء ہیں، جو کتاب اللہ کے حامل، اس کے خازن اور اس کے مفسر ہیں۔” [3]
علی بن ابراہیم قمی:
مشہور مفسر علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:
"وَ النُّورِ الَّذِی أَنزَلْنَا سے مراد حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہیں۔” [4]
ابن عباس:
عبداللہ بن عباس سے منقول ہے:
"بے شک اس آیت میں ‘نور‘ سے مراد حضرت امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کی ولایت ہے۔” [5]
