سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

غزوہ بنی نضیر میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا مدبرانہ اقدام اور یہودیوں کی شکست

غزوہ بنی نضیر میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا مدبرانہ اقدام اور یہودیوں کی شکست

غزوہِ بنی نضیر ان لڑائیوں میں سے ہے جن میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام حضورِ نبی اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے ساتھ شریک رہے، اور اسی غزوے کے نتیجے میں بنی نضیر کے یہودیوں کو مدینہ سے نکالا گیا، غزوہِ بنی نضیر میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا اہم کردار تھا، آپ لشکرِ اسلام کے کمانڈروں میں تھے اور قلعۂ بنی نضیر کے محاصرے میں مقاصدِ جنگ کے حصول میں مؤثر کردار ادا کیا۔

غزوہِ بنی نضیر ان جنگوں میں سے ہے جن میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام حضورِ نبی اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے ساتھ شریک رہے، اور اسی غزوے کے نتیجے میں بنی نضیر کے یہودیوں کو مدینہ سے نکالا گیا، غزوہِ بنی نضیر میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا اہم کردار تھا، آپ لشکرِ اسلام کے کمانڈروں میں تھے اور قلعۂ بنی نضیر کے محاصرے میں مقاصدِ جنگ کے حصول میں مؤثر کردار ادا کیا۔

رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے ربیع الاولِ سن 4 ہجری یعنی ہجرت کے سینتیس ماہ بعد بنی نضیر پر حملہ کیا[1]، بنی نضیر جذام بن عدی قبیلے کی شاخ تھی جو مدینہ میں مقیم تھے۔

یہودیوں کی خیانت اور حضرت جبرائیل کے ذریعہ نبی اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کو اطلاع

اس غزوے کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کعب بن اشرف اور بزرگانِ بنی نضیر کے پاس گئے تاکہ بنى کلاب کے دو افراد کے لئے دیت میں مدد لیں جنہیں عمرو بن امیہ ضمری نے قتل کیا تھا۔

 بنی نضیر نے کہا: ہم جو آپ چاہتے ہیں اس میں آپ کی مدد کریں گے مگر ان میں سے چند افراد الگ ہوئے اور رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

اس وقت جناب جبرائیلؑ نازل ہوئے اور رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کو اُن کی خیانت سے آگاہ کیا، آپ صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے اپنے صحابہ کو ماجرا سے مطلع کیا اور مسلمانوں کو اُن کے خلاف جنگ کا حکم دیا تو وہ بنی نضیر کی طرف چل پڑے، اس لشکر کا پرچم امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ‌السلام کے ہاتھ میں تھا[2]۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کے بہادرانہ اقدام نے یهودیوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا

یہودی جب اپنے قلعوں میں پناہ لیے ہوئے تھے تو عبداللہ بن ابی نے کچھ لوگوں کو  اُن کے پاس پھیجا اور کہا کہ ثابت قدم رہو ، باہر مت نکلنا، ہم کبھی تسلیم نہ ہوں گے، روایت میں آیا ہے کہ محاصرے کی ایک رات امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کہیں غائب ہوگئے۔

رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے فرمایا: یہ آپ ہی کا کام ہے، کچھ دیر بعد امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، عزوک نامی بنی نضیر کے دلاور کا سر لے کر واپس آئے چونکہ عزوک بہادر تیرانداز تھا، حضرت نے اس پر نظر رکھی،جب وہ ایک گروہ کے ساتھ باہر آیا جبکہ اسے مسلمانوں کی موجودگی کی خبر نہیں تھی تو امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے اُسے ہلاک کر دیا اور باقی یہودی فرار ہوگئے۔

 رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے ابو دجانہ اور سهل بن حنیف کو دس دیگر مسلمانوں کے ساتھ اُن کے پیچھے بھیجا،انہوں نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کی تلوار سے بھاگنے والے یہودیوں کو قتل کر کے ان کے سر کنووں میں ڈال دیے گئے جس کے بعد اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں رعب و خوف ڈال دیا۔

جب وہ ابن ابی سے ناامید ہوگئے تو انہوں نے رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ سے بخشش کی درخواست کی اور ان کے جانیں بخشنے کا تقاضہ کیا، رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے محمد بن مسلمہ کو حکم دیا کہ وہ اُن سے کہیں کہ اپنی زمینیں چھوڑ دیں اور جتنا مال اونٹ اٹھا سکتے ہیں ساتھ لے جائیں، مگر سونا، چاندی اور ہتھیار نہیں لے کر جا سکتے[3] اور انہیں تین راتوں کی مہلت دی گئی[4]۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے