سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کی شہادت کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا نقطۂ نظر

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کی شہادت کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا نقطۂ نظر

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام رسولِ اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے وصال کے بعد حقیقی معنوں میں مظلوم واقع ہوئے اور ان پر ظلم ہوا، مگر انہوں نے خاموشی اختیار کی، یہ خاموشی کمزوری کی علامت نہیں تھی بلکہ اس کا سبب وہ وعدہ تھا جو انہوں نے رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے انہیں دیا تھا۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام رسولِ اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے وصال کے بعد حقیقی معنوں میں مظلوم واقع ہوئے اور ان پر ظلم ہوا، مگر انہوں نے خاموشی اختیار کی، یہ خاموشی کمزوری کی علامت نہیں تھی بلکہ اس کا سبب وہ وعدہ تھا جو انہوں نے رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے انہیں دیا تھا۔

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے خاتمِ پیامبران صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کی شہادت کے بعد پیش آنے والے واقعات خاص طور پر حضرت فاطمہ زہرا سلام علیہا کے گھر پر حملہ اور امامت کے منصب کو حق و حقیقت کے راستے سے ہٹائے جانے جیسے معاملات میں بے سوچے سمجھے یا فوری جذباتی فیصلے نہیں کیے، آپ نے ہر معاملے میں وہی مؤقف اختیار کیا جو رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ پر نازل ہونے والی وحیِ الٰہی کے ذریعہ آپ کو معلوم تھا، آپ نے اسی کے مطابق عمل کیا۔
تاہم ان واقعات جیسے حضرت فاطمہ زہرا سلام علیہا کے گھر پر حملہ، امامت کو راہ سے ہٹانا اور شرعی احکام میں متعدد تبدیلیاں قطعی طور پر ایک مقدرِ آسمانی سے مشابہ معلوم ہوتی ہیں، کیونکہ یہ واقعات اسلام کی بقاء کو نقصان پہنچانے والے تھے؛ اس لیے ان پر موقف بھی ایک آسمانی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا۔

کتابِ سلیم بن قیس ہلالی میں آیا ہے: اشعث بن قیس نے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام سے کہا: جب آپ کے پاس بنی تمیم بن مرہ، بنی عدی اور بنی امیہ کے افراد آئے تو آپ نے ان کے ساتھ جنگ کیوں نہ کی؟ جب سے آپ عراق آئے ہیں تب سے ہر خطبہ میں بارہا فرمایا ہے کہ بخدا میں ان لوگوں سے زیادہ اہل ہوں اور رسولِ خداؐ کی شہادت کے بعد میں ہمیشہ مظلوم واقع ہوا ہوں، اتنی مظلومیت کے باوجود آپ نے جنگ کیوں نہیں کی؟

امام علیہ‌السلام نے جواب دیا: یابن قیس! تم نے سوال کیا اور اب جواب سنو، میں نے خدا وند متعال کے سامنے شرمندہ ہونے یا خوف و ڈر کی وجہ جنگ کرنے گریز نہیں کیا، میں اچھی طرح اس حقیقت کو جانتا ہوں کہ جو کچھ پروردگار کے پاس ہے وہ دنیا اور اس کی چیزوں سے بہتر ہے، جس چیز نے مجھے روکا وہ رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کا میرے ساتھ عہد و پیمان تھا۔

رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ نے مجھے بتایا دیا تھا کہ امت انؐ بعد میرے ساتھ کیا کرے گی اور میں نے جو کچھ دیکھا وہ رسولِ خدا کے بتائے ہوئے سے کم نہ تھا؛ رسولِ خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌وآلہ کے کلام پر میرا یقین میرے مشاہدے سے بھی زیادہ ہے، میں نے رسولِ خداؐ سے عرض کیا: جب ایسا ہوگا تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر آپ کو مددگار ملیں تو ان کے ساتھ جہاد کیجئے گا؛ اگر نہ ملیں تو برداشت کیجئے گا اور اپنی جان کی حفاظت کیجئے گا تاکہ دین، کتاب اور سنت کے اجرا کے لے آپ کو یار مددگار مل سکیں۔

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے