امیرالمؤمنین علیہالسلام کی خلیفۂ اول کی بیعت کے مسئلے میں متعدد آراء پائی جاتی ہیں، مگر قطعی طور پر یہ بات مسلم ہے کہ حضرت کسی بھی صورت میں خلیفۂ اول کی بیعت کے خواہاں نہیں تھے۔
رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ کی شہادت کے بعد سب سے اہم واقعات میں سے ایک امیرالمؤمنین علیہالسلام کی جانشینی کا غصب تھا، اس سلسلہ میں سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ کیا امیرالمؤمنین علیہالسلام نے خلفیۂ اول کی بیعت کی تھی؟
اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے:
اولاً: امیرالمؤمنین علیہالسلام کی اصل بیعت کا وجود ہی محلِ اختلاف ہے، بعض روایات میں آیا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہالسلام نے مجبوری اور اکراہ کے ساتھ خلفۂ اول کی بیعت کی، بعض میں آیا ہے کہ آپ علیہالسلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلاماللہعلیہا کی شہادت تک بیعت نہیں کی اور کچھ روایات یہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت علیہالسلام نے سرے سے بیعت کی ہی نہیں۔
ثانیاً: اگر بیعت ہوئی بھی تو وہ جبر اور اکراہ کے نتیجے میں تھی جس میں آپ کی مرضی شامل نہیں تھی، حضرت علیہالسلام اور ان کے ساتھیوں کو قتل کی دھمکی دی گئی تھی۔
امام جعفر صادق علیہالسلام فرماتے ہیں:
خدا کی قسم! امیرالمؤمنین علیہالسلام نے بیعت نہیں کی، یہاں تک کہ جب گھر کو آگ لگا دی گئی[1]۔
کتاب إثبات الوصیة میں آیا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہالسلام اپنے پیروکاروں کے ساتھ گھر میں تھے، مگر ان کے گھر پر ہجوم کیا گیا، دروازے کو آگ لگائی گئی اور حضرت کو گھر سے زبردستی نکالا گیا۔ اسی دوران حضرت فاطمہ سلاماللہعلیہا کو دروازے سے اس قدر دبایا گیا کہ حضرت محسن علیہالسلام سقط ہوگئے، پھر امیرالمؤمنین علیہالسلام سے بیعت لینے کی کوشش کی گئی، مگر آپ نے انکار کیا اور فرمایا: ایسا نہیں کروں گا،انہوں نے کہا: اگر بیعت نہیں کریں گے تو ہم آپ کو قتل کر دیں گے،آپ نے فرمایا: مجھے قتل کرو گے، میں خدا کا بندہ اور اس کے رسولؐ کا بھائی ہوں۔
جب انہوں نے آپ کا ہاتھو کھونا چاہا تو آپ نے مٹھی بند کر لی جسے وہ کھول نہیں سکے تو آخرکار بند مٹھی کے ساتھ ہی آپ کے ہاتھ کو مسح کر لیا[2]،[3]۔
ابن قتیبہ نقل کرتے ہیں کہ خلیفۂ دوم بھی ان لوگوں کے ساتھ تھے جو، امیرالمؤمنین علیہالسلام کو لائے اور ابوبکر کے سامنے کھڑا کیا ، آپ سے کہا: بیعت کیجئے، امام علیہالسلام نے فرمایا: اگر نہ کروں تو؟ انہوں نے کہا: قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ کی گردن اڑا دیں گے[4]۔
تاریخ طبری میں ابن خیزرانہ کے حوالے سے آیا ہے کہ زید بن اسلم کہتا ہے: میں ان لوگوں میں شامل تھا جو خلیفۂ دوم کے ساتھ حضرت فاطمہ سلاماللہعلیہا کے گھر لکڑیاں لے کر گئے تھے، جب امیرالمؤمنین علیہالسلام اور ان کے ساتھیوں نے بیعت سے انکار کیا[5]۔
جب حضرت علیہالسلام نے دیکھا کہ وہ خود اور ساتھی قتل کر دیے جائیں گے، اور یہ قربانی اسلام کے لیے سودمند نہیں ہوگی تو مجبوراً بیعت کر لی اور بارگاہ خدا وندی میں سرخ رو ہو گئے چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ جب آپ رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ کی قبر کے پاس سے گزرے تو عرض کیا: میرے بھائی! ان لوگوں نے مجھے بےحد دبایا، میرا دامن کھینچا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر ڈالتے[6] اور فرمایا: ہائے جعفر! کہ آج میرے پاس جعفر نہیں، ہائے حمزہ! کہ آج میرے پاس حمزہ نہیں[7]۔
ہمارے عقیدے کے مطابق امیرالمؤمنین علیہالسلام چاہتے تو اپنے مخالفین کو ہلاک کر کے اپنا حق بزور بازو لے سکتے تھے مگر آپ نے اسلام کی بقا کو مقدم جانا اور اس اقدام سے گریز کیا کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ اگر ایسا کرتے ہیں تو اکثر لوگ آپ سے منحرف ہو جائیں گے، ان کے باپ، بیٹے اور قبیلے اسلام اور مسلمانوں کے دفاع مین لڑی جانے والی جنگوں میں مارے جاتے اور وہ ماضی کی طرح مرتد ہو جاتے یوں صرف تھوڑے مخلص مؤمن باقی رہ جاتے اور اسلام بھی انہیں کے ساتھ ختم ہو جاتا۔
ابراہیم کرخی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام حسین علیہالسلام سے پوچھا: کیا امیرالمؤمنین علیہالسلام دین خدا میں قوی نہیں تھے؟ امام علیہالسلام نے فرمایا: کیوں نہیں! اس نے کہا: پھر وہ لوگ ان پر غالب کیسے ہوئے اور امیرالمؤمنین علیہالسلام نے مقابلہ کیوں نہیں کیا؟ امام علیہالسلام نے فرمایا: قرآن کی ایک آیت نے انہیں روک دیا۔
اس نے پوچھا: کون سی آیت؟ امام حسین علیہالسلام نے فرمایا: وہ آیت کہ:
لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا[8]
اگر یہ لوگ(مؤمنین) الگ ہوجاتے تو ہم کفّار کو دردناک عذاب میں مبتلا کردیتے۔
یعنی خدا نے کفار و منافقین کی صلبوں میں ایسے افراد کی امانت رکھی تھی جو بعد میں مؤمن بنتے، اسی لیے امیرالمؤمنین علیہالسلام نے ان کے باپ دادا کو قتل نہیں کیا تاکہ وہ نسلیں ظاہر ہوں، جب وہ نکل آئیں تو پھر حضرت نے ان پر غلبہ پایا اور انہیں قتل کیا[9]۔
