امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کی زندگی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک خلیفۂ سوم کے قتل کے بعد لوگوں کی جانب سے آپ کی بیعت ہے۔
جب خلیفۂ سوم عثمان بن عفان کا قتل ہوا تو مہاجرین و انصار کی جماعتیں، جن میں طلحه بن عبیداللہ اور زبیر بن عوام بھی شامل تھے، امیرالمؤمنین علیہالسلام کے حضور آئیں اور عرض کیا:
لوگ امام کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا:
مجھے تم پر حکومت کی حاجت نہیں ہے، جسے چاہو چن لو، میں اس پر راضی ہوں۔
انہوں نے کہا:
ہم آپ کے سوا کسی کے پاس نہیں جائیں گے،ہم کسی کو آپ سے زیادہ شایستہ اور سزاوار نہیں جانتے جو اسلام میں سبقت رکھنے والا اور رسول خدا صلیاللہعلیہوآلہ سے قریب تر ہو۔
امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا:
ایسا نہ کرو! میرے لئے یہ بہتر ہے کہ میں آپ لوگوں کا وزیر رہوں، نہ کہ امیر۔
انہوں نے کہا:
خدا کی قسم! جب تک ہم آپ کی بیعت نہیں کر لیتے کوئی کام نہیں کریں گے۔
آپ نے فرمایا:
پس بیعت مسجد کے علاوہ کہیں نہیں ہو گی کیونکہ میری بیعت خفیہ نہیں ہے حالانکہ لوگ آپ کے گھر پر موجود تھے۔
بعض کا کہنا ہے کہ آپ بنی عمرو بن مبذول کے باغ میں تھے، وہاں سے بازار کی طرف نکلے، آپ نے جیب کے بغیر ایک پیراہن زیب تن کیا تھا، سر پر نرم عمامہ تھا، جوتے ہاتھ میں تھے اور کمان پر تکیہ دیے ہوئے تھے، اسی حال میں لوگوں نے آپ سے بیعت کی۔
سب سے پہلے بیعت کرنے والے طلحه بن عبیداللہ اور زبیر بن عوام تھے، اس وقت حبیب بن ذویب نے طلحه کو دیکھ کر کہا:
انا للہ! بیعت کرنے والا پہلا شخص اپاہج ہے[1]۔
پھر امیرالمؤمنین علیہالسلام نے فرمایا:
مجھے کسی چیز نے خوفزدہ نہ کیا مگر یہ کہ لوگ مجھ پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے لکڑبگھے کی گردن پر کھڑے بال ہوتے ہیں اور ہر طرف سے میرے گرد جمع ہوگئے، یہاں تک کہ میرے دونوں بیٹے حسن و حسین علیہماالسلام اس بھیڑ میں دب گئے اور میری چادر دونوں جانب سے پھٹ گئی۔
لوگوں نے مجھے اس طرح محاصرے میں لیا جیسے بھیڑیں چرواہے کو گھیر لیتی ہیں لیکن جب میں نے خلافت کو سنبھالا تو کچھ لوگوں نے پیمان توڑ دیا، کچھ لوگ دین سے باہر نکل گئے اور کچھ نے سرکشی کا راستہ اختیار کیا گویا ان تینوں گروہوں نے خدا کے اس کلام کو کبھی نہیں سنا تھا ’’تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ[2]‘‘
(یہ دار آخرت وہ ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں اور عاقبت تو صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے)۔
خدا کی قسم! وہ اسے سن چکے تھے اور یاد بھی رکھا تھا، مگر دنیا کی چمک دمک نے ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا اور اس وسائل نے انہیں فریب میں ڈال دیا۔
آپ نے مزید فرمایا:
سنو! اس ذات کی قسم جس نے دانہ شگافتہ کیا اور مخلوقات کو وجود بخشا، اگر حاضرین کی موجودگی اور مددگاروں کے ذریعے مجھ پر حجت قائم نہ ہو جاتی، اور اگر وہ عہد نہ ہوتا جو خدا نے علما سے لیا ہے کہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک پر خاموش نہ رہیں، تو میں خلافت کی لگام کو اس کے کوہان پر ڈال دیتا اور ابتدا و انتہا کو یکساں کر دیتا، اس وقت تم دیکھتے کہ تمہاری دنیا کی حقیقت میرے نزدیک بکری کی ناک سے نکلنے والی رطوبت سے بھی کم تر ہے[3]۔
اور فرمایا کہ تم نے میرا ہاتھ کھولا اور میں نے اسے بند کیا، تم نے میرا ہاتھ کھینچا اور میں نے اسے روک لیا، پھر تم مجھ پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے پیاسے اونٹ حوض پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا، چادر دوش سے گر گئی اور کمزور لوگ پاؤں تلے روندے گئے،لوگوں کی خوشی اس حد تک پہنچ گئی کہ بچے شادمانی کرتے، بوڑھے لاغر و لرزاں قدموں پر چلتے ہوئے، بیمار اپنی بیماریوں کے باوجود اور دوشیزگان بے نقاب دوڑتی ہوئی میرے پاس آ پہنچیں[4]۔
