سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

"جنب اللہ" سے مراد امیرالمومنین علیہ‌السلام ہیں

"جنب اللہ” سے مراد امیرالمومنین علیہ‌السلام ہیں

اللہ کے ارشاد 'یَا حَسْرَتی عَلی ما فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ' میں 'جنبِ خدا' سے مراد امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام ہیں، اور ان کے بعد ان کے اوصیاء، یہاں تک کہ آخری وصی تک

آج جس آیتِ کریمہ پر گفتگو ہورہی ہے وہ سورۂ زمر کی آیت نمبر ۵۶ ہے۔

خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے:

أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ في جَنْبِ اللهِ وَ إِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرينَ

"کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص قیامت کے دن کہے:  افسوس مجھ پر! میں نے خدا کی فرمانبرداری میں کوتاہی کی اور میں تو مسخرہ کرنے والوں میں شامل رہا۔”

امام موسیٰ کاظم علیہ‌السلام سے روایت ہے:

"اللہ کے ارشاد ‘یَا حَسْرَتی عَلی ما فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ’ میں ‘جنبِ خدا’ سے مراد امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام ہیں، اور ان کے بعد ان کے اوصیاء، یہاں تک کہ آخری وصی تک۔[1]"

رسول اکرم صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے فرمایا:

"اے ابوذر! جو کوئی علی علیہ‌السلام کے حق اور ان کی ولایت کا انکار کرے گا، قیامت کے دن اسے بہرے، گونگے اور اندھے کی شکل میں لایا جائے گا۔ قیامت کی تاریکی میں زمین پر گھسیٹا جائے گا اور چیختا ہوا کہے گا: یَا حَسْرَتی عَلی ما فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ۔ اس کے گلے میں آگ کا ایک طوق ڈال دیا جائے گا، جس کی تین سو شاخیں ہوں گی اور ہر شاخ پر ایک شیطان بیٹھا ہوگا جو اس کے چہرے پر تھوک ڈالے گا، اور اسے قبر سے گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔[2]"

رسول اللہ صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے فرمایا:”اپنے مُردوں کو ‘لا إلهَ إلّا الله’ کی تلقین کرو۔ کیونکہ جب مؤمن قبر میں اتارا جاتا ہے تو یہی کلمہ اس کا مونس و رفیق بنتا ہے۔ جبرئیل نے مجھے بتایا: اے محمد! جب وہ اپنی قبروں سے نکلیں گے تو تم دیکھو گے کہ مٹی جھاڑتے ہوئے نکلیں گے۔ مؤمن کا چہرہ نورانی ہوگا، وہ کہے گا: لا إلهَ إلّا اللهُ والحَمدُ لله۔ اور کافر کا چہرہ سیاہ ہوگا، وہ کہے گا: یَا حَسْرَتی عَلی ما فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ، یعنی [میں نے] ولایتِ علی علیہ‌السلام میں جو کوتاہی کی، اس پر افسوس ہے۔[3]"

امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام نے فرمایا:

 ہم خدا کے علم کے خزانے دار اور اس کے علم کے چراغ ہیں۔ جب ہم میں سے کوئی دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لیتا ہے۔ جو ہماری پیروی کرے وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا اور جو ہمارا انکار کرے وہ ہرگز ہدایت نہیں پاتا۔ جو ہمارے دشمنوں کی مدد کرے وہ نجات نہیں پاتا اور جو ہمیں چھوڑ دے وہ کسی کی مدد کو نہیں پاتا۔ دنیا کی لالچ اور اس کی فانی زینت کے لیے ہمارے مقابلے میں نہ آؤ، کیونکہ یہ سب ختم ہو جانے والا ہے اور تم بھی دنیا چھوڑنے والے ہو۔ جو کوئی دنیا کو آخرت پر اور ہمیں چھوڑ کر دنیا کو ترجیح دے گا، قیامت کے دن سخت حسرت کرے گا اور یہی وہ کلامِ الٰہی ہے جہاں فرمایا گیا:  "یا حَسْرَتی عَلی ما فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ وَ إِنْ کُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِینَ[4]"۔

آپ نے ایک اور خطبے میں فرمایا:

"میں لوگوں کا رہنما ہوں، میں وہ ہوں جس نے حق کا راستہ پہچانا ہے۔ میں یتیموں اور مسکینوں کا باپ ہوں، بیوہ عورتوں کا سہارا، بے بسوں کی پناہ گاہ اور خوفزدہ لوگوں کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہوں۔ میں مؤمنوں کا قافلہ سالار ہوں جو جنت کی طرف جا رہے ہیں۔ میں خدا کی محکم رسی اور سب سے مضبوط سہارا ہوں۔ میں کلمۂ تقویٰ، خدا کی بیدار آنکھ، اس کی سچی زبان اور ہاتھ ہوں۔ میں وہی "جنب خدا” ہوں جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے: «یا حَسْرَتی عَلی ما فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ»۔ میں خدا کا دستِ رحمت ہوں جو اس کے بندوں پر پھیلا ہوا ہے۔ میں بابِ حطّہ ہوں۔ جس نے مجھے پہچانا اور میرا حق تسلیم کیا اس نے دراصل اپنے پروردگار کو پہچانا، کیونکہ میں زمین پر رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ کا جانشین اور خدا کی حجت ہوں۔ اس بات کو رد کرنے والا دراصل خدا اور اس کے رسول کو رد کرنے والا ہے[5]۔"

پھر فرمایا: میں "جنب خدا” ہوں اور میں ہی قیامت کے دن لوگوں کی حسرت کا باعث ہوں گا کہ وہ میری ولایت کو قبول نہ کر سکے۔[6]

امام علیہ‌السلام نے فرمایا: "جنتی لوگ ہمارے شیعوں کے گھروں کو ایسے دیکھیں گے جیسے آسمان پر چمکتا ستارہ نظر آتا ہے۔ جو ہماری پیروی کرے گا وہ گمراہ نہیں ہوگا اور جو ہمارا انکار کرے گا وہ ہرگز ہدایت نہیں پائے گا۔ جو ہمارے دشمنوں کی مدد کرے گا وہ نجات نہیں پائے گا اور جو ہمیں چھوڑ دے گا وہ بے یار و مددگار ہوگا۔ ہمیں دنیا کی لالچ میں چھوڑ نہ دینا، کیونکہ دنیا بھی فنا ہونے والی ہے اور تم بھی فنا ہو جاؤ گے۔ جو کوئی دنیا کو ہم پر ترجیح دے گا وہ کل قیامت کے دن سخت حسرت کرے گا اور یہی وہ ہے جس کے بارے میں خداوند نے فرمایا: «یا حَسْرَتی عَلی ما فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ»۔"[7]

امام جعفر صادق علیہ‌السلام سے روایت ہے:

خداوند نے ہمیں اپنے "جنب” (پہلو) کا حصہ قرار دیا ہے، اور یہی وہ کلامِ خدا ہے جہاں فرمایا گیا: «یَا حَسْرَتَی عَلَی مَا فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ» یعنی افسوس ان لوگوں پر جو ولایتِ علی علیہ‌السلام قبول نہ کریں گے۔[8]

پھر فرمایا: امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام ہی جنبِ خدا ہیں۔[9]

امام علی رضا علیہ‌السلام نے بھی اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:

«فِی جَنبِ اللهِ» سے مراد علی علیہ‌السلام کی ولایت ہے، اور حسرت ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اسے قبول نہ کیا۔ [10]

علی بن ابراہیم سے نقل ہوا ہے:

 خداوند کے فرمان «وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ ما أُنزِلَ إِلَیْکُم مِّن رَّبِّکُمْ» سے مراد قرآن اور امیرالمؤمنین علیہ‌السلام اور ائمہ علیہم‌السلام کی ولایت ہے۔ اس کی دلیل یہی آیت ہے: «یَا حَسْرَتَی عَلَی مَا فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللهِ»، کیونکہ امام صادق علیہ‌السلام نے فرمایا: "ہم ہی جنب اللہ ہیں۔”[11]

امام زین العابدین علیہ‌السلام نے فرمایا:

 "جنبِ خدا علی علیہ‌السلام ہیں اور وہ قیامت کے دن مخلوقات پر خدا کی حجت ہیں۔ جب قیامت کا دن آئے گا تو خداوند جہنم کے دربانوں کو حکم دے گا کہ دوزخ کی کنجیاں علی علیہ‌السلام کو دے دیں تاکہ وہ جسے چاہیں جہنم میں داخل کریں اور جسے چاہیں نجات بخشیں۔ یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں رسول خدا صلی‌الله‌علیہ‌وآلہ نے فرمایا: ‘جو تجھے دوست رکھے وہ مجھے دوست رکھتا ہے اور جو تیرا دشمن ہو وہ میرا دشمن ہے۔ اے علی! تو میرا بھائی ہے اور میں تیرا بھائی ہوں۔ اے علی! قیامت کے دن پرچمِ حمد تیرے ہاتھ میں ہوگا۔ تو اس پرچم کو لے کر امت کے مؤمنین اور بزرگوں کے آگے چلے گا اور فرشتے دونوں جانب سے مؤمنوں کو آواز دیں گے تاکہ وہ اس کاروانِ نجات سے جا ملیں۔[12]

مزید مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے