خدا وند متعال سورہ بقرہ کی آیت 208 میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِۚ- اِنَّهٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ[1]
اے ایمان والو! سلامتی (اور اسلام) میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
تفسیر امام حسن عسکری علیہالسلام
امام حسن عسکری علیہالسلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "جب اللہ تعالیٰ نے ان دو آیتوں’’وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ[2]‘‘
(انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی باتیں زندگانی دنیا میں بھلی لگتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ہیں)
اور’’ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ[3]‘‘
(اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے)
میں دو گروہوں (منافقین اور مومنین) کا ذکر فرمایا اور لوگوں کو اس شخص کے حال کی طرف بلایا جس کا عمل اسے راضی کرتا ہے، تو فرمایا: اے ایمان والو! تم سب کے سب اسلام (کی آغوش) میں داخل ہو جاؤ[4]۔
امام علیہالسلام ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
( اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ) اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں پورے کے پورے دین اسلام میں داخل ہو جاؤ اور اسے قبول کرو، اور اللہ کے لیے عمل کرو، ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے اسلام کے بعض احکام تو قبول کر لیے اور ان پر عمل بھی کیا، لیکن اس کے بعض دوسرے احکام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں ترک کر دیا۔
امیرالمؤمنین علی علیہالسلام کی ولایت کی قبولیت، رسول اللہ صلیاللہعلیہوآلہ کی نبوت کی قبولیت کی طرح اسلام کا حصہ ہے۔ جو شخص یہ کہے کہ ‘محمد صلیاللہعلیہوآلہ اللہ کے رسول ہیں’ اور ان کی نبوت کا اقرار کرے، لیکن اس بات کا اعتراف نہ کرے کہ علی علیہالسلام ان کے وصی، جانشین اور ان کی امت کے منتخب فرد ہیں، تو وہ مسلمان نہیں ہے[5]!”
امام حسن عسکری علیہالسلام سے یہ بھی منقول ہے:
” شیطان اپنی دشمنی کی وجہ سے چاہتا ہے کہ تمہیں ثواب حاصل کرنے سے روکے اور سخت ترین عذاب میں ہلاک کر دے۔ اگر تم اسلام سے گمراہ ہو گئے جو علی علیہالسلام کی ولایت کے اعتقاد سے مکمل ہوتا ہے، تو پھر نبوت کا اقرار بھی، حضرت علی علیہالسلام کی امامت کے انکار کے ساتھ، کوئی فائدہ نہیں دے گا؛ جس طرح توحید کا اقرار، نبوت کے انکار کے ساتھ بے فائدہ ہے۔”[6]
مولائے متقیان حضرت علی علیہالسلام:
- حضرت علی ابن ابی طالب علیہالسلام فرماتے ہیں: "السِّلْمِ (سلامتی/اسلام) سے مراد ہم اہل بیت علیہم السلام کی ولایت ہے۔[7]"
- امیرالمومنین علیہالسلام نے رسول ختمی مرتبت صلیاللہعلیہوآلہ کے خاندان (اہل بیت) کا نام لے کر فرمایا: "یہی لوگ سلامتی (سلم) میں ہیں۔"[8]
- امیرالمومنین علیہالسلام نے ایک طویل بیان میں فرمایا: "خاندانِ پیغمبر صلیاللہعلیہوآلہ تمہارے درمیان اصحاب کہف کے مانند ہیں، ان کی مثال بابِ حطہ (بنی اسرائیل کے لیے مغفرت کا دروازہ) کی طرح ہے، اور یہی لوگ بابِ سلم (سلامتی کا دروازہ) ہیں۔” آپ نے کشتی نوح کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ نجات پانے والا صرف وہی ہے جو اس کشتی (یعنی اہل بیت علیہمالسلام) میں سوار ہو۔[9]
امام محمد باقر علیہالسلام:
- زرارہ، حمران اور محمد بن مسلم روایت کرتے ہیں کہ ہم نے امام باقر علیہالسلام سے آیت"ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً" کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: "اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو ہم اہل بیت علیہم السلام کی معرفت (پہچان) کا حکم دیا گیا ہے۔”[10]
- امام باقرعلیہالسلام نے فرمایا: "السِّلْمِ سے مراد آل محمد (ص) ہیں، اور اللہ نے لوگوں کو ان کی ولایت میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔[11]"
- آپ باقرعلیہالسلام نے ایک اور جگہ فرمایا: "(دخول فی السلم سے مراد) امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ان کی اولاد (ائمہ معصومین) علیہمالسلام کی ولایت کو قبول کرنا ہے۔"[12]
امام جعفر صادق علیہالسلام:
- ابوبصیر روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہالسلام نے پوچھا: "کیا تم جانتے ہو کہ السِّلْمِ کیا ہے؟"میں نے کہا: "آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔" آپ نے فرمایا: "اس سے مراد علی علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے ائمہ و جانشینوں علیہم السلام کی ولایت ہے۔[13]"
- آپ علیہالسلام نے فرمایا: "ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً سے مراد علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت میں داخل ہونا ہے۔"[14]
- آپ علیہالسلام نے یہ بھی فرمایا: "وَلا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ (اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو) کا مطلب یہ ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کسی کی پیروی نہ کرو۔[15]"
