سب سے زیادہ تلاش کیا گیا:

امیرالمؤمنین علیہ‌السلام کا کوفہ کے لوگوں کی بزدلی اور سستی پر اظہارِ خفگی

نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 34، امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام کا وہ خطبہ ہے جس میں آپؑ نے رہبر اور عوام کے باہمی حقوق کو واضح فرمایا ہے[1]۔

یہ خطبہ دراصل اس وقت ارشاد فرمایا جب آپؑ نے اہلِ کوفہ کو شامی لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہونے کی دعوت دی۔

اس خطبے میں سب سے پہلے امیرالمؤمنین علیہ‌السلام نے سستی، بزدلی اور جہاد و دینی ذمہ داریوں میں غفلت برتنے پر لوگوں کی  سخت ملامت کی،اس کے بعد آپؑ نے ان حقوق کو بیان کیا جو رعایا کو اپنے حاکم پر حاصل ہیں، اور وہ حقوق بھی بیان کیے جو حاکم کو اپنی رعایا پر حاصل ہوتے ہیں۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

میں تمہیں سرزنش کرتے کرتے تھک چکا ہوں،تم پر افسوس! بار بار ملامت کر کے عاجز آ گیا ہوں۔

کیا تم نے آخرت کی دائمی زندگی کو چھوڑ کر دنیا کی فانی زندگی پر قناعت کر لی ہے؟ اور عزت و سربلندی کو ترک کر کے ذلت و خواری کو اختیار کر لیا ہے؟

جب بھی میں تمہیں جہاد کی دعوت دیتا ہوں، تمہاری آنکھیں خوف سے یوں پھر جاتی ہیں جیسے موت کے خوف نے عقل چھین لی ہو، تم ایسے ہو جیسے نشے میں دھت انسان جو جواب دینے کے قابل نہیں رہتا، سرگرداں اور بے خود ہو گئے ہو، گویا تم نے اپنی عقلیں کھو دی ہیں اور تم میں سمجھنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔

میں نے کبھی تم پر اعتماد نہیں کیا اور نہ ہی تم اس قابل ہو کہ تم پر بھروسہ کیا جائے، تم ایسے ساتھی بھی نہیں ہو کہ مصیبت کی گھڑی میں تمہاری طرف ہاتھ بڑھایا جا سکے،تم ان بے چرواہا اونٹوں کی مانند ہو جو اگر ایک طرف جمع ہوتے ہیں تو دوسری طرف سے منتشر ہو جاتے ہیں۔

خدا کی قسم! تم دشمن کے خلاف جنگ بھڑکانے کا بدترین سامان ہو، وہ تمہارے خلاف سازشیں کرتے ہیں مگر تم ان کے خلاف کوئی تدبیر نہیں کر سکتے، دشمن تم پر حملہ کرتا ہے، تمہارے شہر چھین لیتا ہے اور تمہیں پرواہ بھی نہیں ہوتی !

دشمن کی آنکھیں تم پر حملے کے لیے جاگتی رہتی ہیں اور تم غفلت کی نیند میں پڑے رہتے ہو،شکست ان کا مقدر ہے جو ایک دوسرے کی مدد ترک کر دیں۔

خدا کی قسم! میرا خیال ہے جب جنگ شدت اختیار کرے گی اور موت کی حرارت اور سوزش تمہارے قریب پہنچے گی تو تم ابوطالب کے بیٹے کے پاس سے اس طرح الگ ہو جاؤ گے جیسے سر دھڑ سے جدا ہو جاتا ہے۔

خدا کی قسم! جو شخص دشمن کو اپنے اوپر مسلط کر دے کہ وہ اس کا گوشت نوچ لے، اس کی ہڈیاں توڑ دے اور اس کی کھال کھینچ لے، تو اس کی کمزوری بہت بڑی ہے اور اس کا دل نہایت چھوٹا اور کمزور ہے۔

امام علیہ السلام نے خطبے کے آخر میں فرمایا:

اے سننے والے! اگر تو بھی ان لوگوں کی جیسی ذلت و ناتوانی کو پسند کرتا ہے تو کر لے! لیکن میں، خدا کی قسم! ہرگز خاموش نہیں بیٹھوں گا، اس سے پہلے کہ دشمن کو موقع دوں، تیز دھار تلوار سے ایسا وار کروں گا کہ اس کے سر کی ہڈیوں کے ٹکڑے اڑ جائیں اور اس کے ہاتھ پیر کٹ کر جدا ہو جائیں، اس کے بعد وہی ہوگا جو خدا چاہے گا۔

اے لوگو! میرا تم پر اور تمہارا مجھ پر حق ہے،تہمارا حق یہ ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی میں کوتاہی نہ کروں، بیت المال تم ہی پر خرچ کروں، تمہیں تعلیم دوں تاکہ جہالت سے نکل آؤ اور تمہاری تربیت کروں تاکہ تم سیکھ سکو۔

اور تم لوگوں پر میرا حق یہ ہے کہ تم اپنی بیعت میں وفادار رہو، علانیہ اور خفیہ میری خیر خواہی کرو، جب میں بلاؤں تو لبیک کہو اور جب میں حکم دوں تو اطاعت کرو۔

[1] ۔ اس خطبے کا ایک حصہ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے (مستدرک و مدارک نہج البلاغہ، ص 242)۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں: یہ خطبہ امام علیہ‌السلام نے نہروان میں خوارج کے خاتمے کے بعد ارشاد فرمایا تھا (جلد 2، ص 192)۔

بعض دوسرے اہلِ تحقیق کا کہنا ہے: امام علیہ‌السلام نے یہ خطبہ اس وقت ارشاد فرمایا جب آپ خوارج سے جنگ کے بعد واپس آئے اور آپ کے سپاہیوں نے شام کے لشکر کے خلاف آمادگی دکھانے میں کوتاہی کی۔ (اور خطبے کا ظاہر بھی اسی رائے کی تائید کرتا ہے) (ابن ابی الحدید، جلد 2، ص 194)۔